کوئی آواز تو دے” واجدہ تبسم کا ثقافتی بیانیہ

مقالہ نگار : روبینہ شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑہ

11 اپریل, 2023

ثقافت عربی زبان کا لفظ ثقف سے ماخذ ہے معنوی اعتبار سے اس کے معنی دانائی اور چابک دستی کے ہیں۔ جس میں کسی معاشرے کا رہن سہن طور طریقے ، فن آرٹ کلاسیکل ، میوزک لباس اور کھانا پینا وغير س شامل ہے

ثقافت میں ناصرف ماضی کا ورثہ بلکہ مستقبل کا تجربہ بھی شامل ہے۔ تقافت کا دوسرانام تہذیب ہے تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جس کے معنی طرز معاشرت میں رہنے سہنے کا انداز تہذیب اور ثقافت کے معنی کو یکجا کرکے ان کے لیے ایک لفظو یکجا استعمال کیا گیا ہے ۔ کلچر انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کاشت کرنا۔ دیکھ بھال کرنا ۔ جانوروں کو پالنے کا عمل اور انسان میں تعلیم تربیت کے ذریعے بہتری لانا کلچر کے حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں ک کلچر داخلی اور خارجی رویوں کا نام ہے یعنی کسی زبان میں خاص افکار اور دوسرے اثرات کے تحت اپنے اندر پیدا کرلیے ہوتےہیں۔مثلا رسم و رواج،”

فنون لطیفہ ، و مفیده حالت امن و جنگ میں بھی اور مجلسی زندگی

مذہب ، علوم اور آرٹ سب کلچر کا حصہ ہیں۔ صفحہ نمبر 13

عمر    دو سال بعد والد کا بھی سایہ سر سے اٹھ گیا  ، واجده نسیم 16 مارچ 1935 کو امراوتی مہاراشٹر میں پیدا ہوئیں ان کی عمر ایک سال تھی والدہ کا انتقال ہوگیا۔  واجدہ کی چار بہنیں نازنین، ساجدہ، شاہدہ، ناہید بھائی تھے۔ ان یتیم بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ان کی نانی نے اپنے سر لی۔

والد نے واجدہ کا نام واجدہ بیگم رکھا جبکہ والدہ نے ملک میں ان کا واجدہ بیگم درج کیا گیا جب انہوں نے لکھنا شروع کیا تو قلمی نام واجدہ نسیم اختیار کیا انہوں نے مڈل تک تعلیم امراوتی میں حاصل کی انہیں مالی مشکلات میں جکڑ لیا جس کے سبب انہوں نے میٹرک ،ایف اے بی اے کے امتحانات ناگ  یونیورسٹی سے بطور پرائیویٹ امیدوار امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔

انیس سو ستر میں ناگ یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ان کی زندگی گھر کی چار دیواری میں گزریں اور قلم سے رشتہ جوڑ کر اردو زبان و ادب کی آبیاری کرتی رہیں۔  ان کی شادی اپنے کزن اشفاق سے بھری جو انڈین ریلوے میں ملازم تھے طور پر رہائش پذیر ہیں ان کی ایک بیٹی اور چار بیٹے تھے عمر کے آخری حصے میں انہیں مختلف قسم کی بیماریوں مثلاً بلڈ پریشر، شوگر جوڑوں کا درد جیسے امراض ان کی عمر کے آخری حصے تک چلتے رہے

بالآخرچھیتر سال کی عمر میں اس فانی دنیا سے کوچ کر گئی۔ اردو زبان و ادب کی اہم ادیبہ متعدی افسانوی مجموعہ ناولوں اور ناولٹوں کی صورت میں ایک اچھا خاصا ادبی سرمایہ چھوڑ کر گئی۔

ان کی درج ذیل تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں۔ان کے متعدی اہڈیشن ہمارے سامنے آچکے ہیں۔اس افسانہ میں تہذیب و ثقافت کا بیان ملتا ہے اس افسانے میں عوام الناس کی طرز گفتگو گفتگو کے ساتھ ساتھ امیر غریب طبقے کی زندگی کی عکاسی بھی ملتی ہے اس افسانے میں کردار نگاری کے حوالے سے  مرکزی کردار شبنم اور امتیاز ہے۔  شبنم اپنی خالہ ثریا کے بلانے پر ان کے گھر اس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے جاتی ہے لیکن شبو کی خالہ اسے نوکرانی کا درجہ دیتی ہے۔ شادی بیاہ کے سارے کام اس سے کرواتی ہے اور شبو کےرہنے کے لیے بھی سرونٹ کوارٹر کا ہی ایک کمرہ دیا جاتا ہے خالہ کا بیٹا امتیاز یہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ کئی بار اپنی ماں سے اس بارے میں بات کرتا ہے کہ اگر اس کی ماں نے شبو پر یوں ہی ظلم و ستم کرنے تھے تو اسے یہاں بلایا کیوں تھا امتیاز کی ماں امتیاز سے کہتی ہے اسے یہاں اچھا کھانا کپڑے اور ساری سہولیات بھی میسر کی گئی ہیں۔ امتیاز شبو کے لیے دل میں نرم جذبات رکھتا ہے۔ شبو اسے بڑے صاحب کہہ کر پکارتی ہے۔

لیکن امتیاز اسے ہر دفعہ منع کرتا ہے ۔ایک دن امتیاز شبو کو بنگلا دکھانے کے بہانے اسے ٹیرس پر لے کر جاتا ہے اور وہ شبو سے اظہار محبت کرتا اور بڑے صاحب کہنے سے منع کر دیتا ہے۔

شبو اس سارے معاملے سے بہت ڈر جاتی ہے امتیاز نے اس کے بعد کئی بار اپنی والدہ سے اپنی اور شبو کی شادی کے بارے میں بات کی لیکن اس کی ماں نے ہر دفعہ اسے بری طرح سے جھٹک دیا۔ امتیاز کی ماں شبو اور اس کی ماں یعنی اپنی بہن سے بہت برا سلوک کرتی اور امتیاز سے یہ سب برداشت نہ ہوتا پھر امتیاز ان تمام حالات کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ امتیاز کے منگیتر اپنی ماں سے کہتی ہے کہ شادی کے بعد ساری دولت اپنے قبضے میں کر لوں گی اور اس سے طلاق لے لوں گی شبو اس سے کہتی ہے آپ ایسے نہ کہئے اگر امتیاز نے سن لیا تو اسے دکھ ہوگا  گا۔

اس کی زیادہ خراب حالت کے باعث ڈاکٹر پاگل خانے لے جانے کا کہتا ہے  لیکن  شبو  نہیں جاتی۔ وہ خود بھی ساتھ جانا چاہتی ہے لیکن ڈاکٹر منع کر دیتا ہے۔ امتیاز کی ماں یہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے ۔جب وہ اپنی ماں کو لے کر اس گھر سے جانے لگتی ہے امتیاز آواز دیتا ہے کہ رک جاؤ۔ سب حیران ہوجاتے ہیں پھر امتیاز ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ اب سب کھیل ختم کردینا چاہیے اور سب کو حقیقت بتا دینی چاہیے۔

اس حوالے سے ایک مثال ملاحظہ ہو ۔جائے نماز پر بیٹھی اس کی امی اپنے بیٹے کی خوشیوں کی دعا خدا کے حضور گڑگڑا کر ماننے لگتی ہے اسے اپنے بیٹے کی خوشیوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں سوجھتا

۔   جاگیر داروں کے ہاں کھانا پکانے والے باورچی بڑے ماہر خانساماں ہوتے تھے ۔ جو دعوتوں اور شادی بیاہ کے موقعوں پر مختلف انواع اقسام کے کھانے بناتے تھے اور پیش کرتے تھے ۔ تقریبات کے علاوہ عام دنوں بیسویں قسم کے کھانے ان کے دسترخوان پر آراستہ ہوئے۔ برصغیر میں تر مانہ قدیم سے بے شمار رسمیں ایسی ہیں جو ابھی تک چلی آ رہی ہیں ۔ جو ہماری تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں ۔

واجدہ نسیم نے بیان کردہ اس ثقافتی پہلو کو اجاگر کیا کہ کس طرح دسترخوانوں میں کھاتوں کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ اس کو بڑے پر کار انداز میں بیان کیا۔ اس حوالے سے ایک مثال ملاحظہ ہو۔

” صاحب زادے کھانا شروع کیجئے ۔ ۔ ۔ ڈ ش میں سے خود ہی بہت سا مرغ کا قورما انڈیلا پھر شیر مالوں سے بھرا طشت اٹھا کر —- جھیاک سے کمرے سے باہر نکل گیا اور سیدھا مہمانوں کے کمرے میں پہنچ گیا ۔ صفحہ نمبر تینتالیس

پرانے رمانے میں حویلیوں کی شان وشوکت اور سجاوٹ کے لیے مختلف قسم کی آرٹ و فن کا کام ہوا تھا ۔ کمروں میں مختلف قسم کی سجاوٹ کے لیے قیمتی سامان رکھا جاتا محلوں کے سامنے پڑے بڑے لان حس کو مختلف پودوں اور پھولوں سے سجایا جاتا ہیں۔ باغات کی خوبصورتی و فراوانی کسی بھی سلطنت کی خوشحالی اور ترقی کی علامت ہے۔ تہذیب و ثقافت میں یاد شاہ سلاطین کے لیے باغات لگوانا اور ان کی خوبصورتی کا اہتمام کروانا ان کا مشغلہ تھا۔ شجر کاری کا بیان تہذیبی ہے ۔ واجده نسیم سے اس افسانے میں سجاوٹ قیمتی سامان اور شجر کاری کے ذریے باغات کو خوبصورت بنانے کے اس عمل کو بیان کیا ہے ۔ اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہے۔

  • ” پاگل پن تو سب ایک ڈرامہ تھا۔ ڈاکٹر نے سارا ماجرا بتایا اس کے بعد اس کی ماں شبو کو امتیاز کی دلہن بنانے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ شبو کی آنکھوں میں بے تحاشا آنسو اُبل پڑے ۔ وہ آنسوؤں سے غمگین نہیں بلکہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی ۔ میرے مالک یہ آنسو ہیں خوشیوں کے چراغ ہیں انھیں ہمیشہ رو شن رکھو ۔
  • اس افسانے میں جن ثقافتی اور تہذیبی پہلو کو بیان کیا گیا اس میں گھڑ سواری اور تانگے کی عکاسی ملتی ہے ۔ پرانے وقتوں میں آنے جانے کے لیے گھڑ سواری اور تانگے وغیره کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کا آغاز چوده سو سال پہلے ہو چکا ہے ۔ شادی بیا میں دولہے کی دولہا سواری اور دلہن کی ڈولی کے لیے استعمال کرتے ۔ آج بھی کئی اسے کام ہیں جو گھوڑے ہی بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں ۔ گھوڑوں کو سازو سامان کے ساتھ تیار کرکے تاریخی واقعات رسمی تقریبا ت جنگوں کی نقالی شغل میلوں کھیلوں اور دوسرے کام کاج کے لیے استعمال کیا جاتا یہ تمام تر واقعات میں تقافت کا بیان ملتا ہے اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہو۔
  • چھن چھن کرتا تانگہ کوٹھی کے شاندار پھاٹک پر آکر رک گیا۔ سواریاں اتروا لو بھائی ۔ کوئی زنانی سواریاں تانگے پر آئی ہیں ۔ ۔ ۔ تانگہ والا اپنی سیٹ پر چڑھا بیٹھا پیسے گن کر اپنی جیب میں ڈالے اور کوڑا لہراتا ہوا گیا ۔ صفحہ نمبر بتیس
  • پیغام کی ترسیل کے لیے اس وقت کوئی اور ذریعہ سا تھا سوائے خط و کتابت کے جنگ کے حالات و واقعات سے آگاه کرنے کے لیے شادی بیاہ میں بلانے کے لیے سوائے خط وکتابت یا قاصد کے کوئی اور ذریعہ نہ تھا لکھنے والا اپنے
  • خیالا ت کے ساتھ ساتھ اس دور کی تاریخ بھی لکھی گئی
  • ۔ امتیاز علی قریشی لکھتے ہیں کہ
  • خط نازک سے نازک لطیف سے لطیف پیچیده سے پیچیده جذبے اور احساس کا اظہار ہوتا ہے ۔ اسے تصویر اور مجسمے کی صورت میں ڈھالا جاتا ہے۔
  • ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں کہ
  • اپنے الفاظ کے ذریعے خطوط میں کسی علاقے کا منظ بیان کرنا تصویر بنانا ۔ ان میں رنگ بھر دینا خطوط ہیں کی شکل ہیں ۔
  • اس افسانے میں خط و کتابت کے حوالے سے من ثقافتی پہلو کے اجاگر کیا گیا ۔ اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہو۔ .
  • لاکھ خط بلاوے بھیجے مگر اپنا گھر نہ چھوڑا خود آتیں نہ آتیں کم از کم اپنی لڑکی کو بھیجا ہوتا ولا بھی نہ ہو۔ صفحہ نمبر سینتیں ۔
  • انہوں نے تہذیب و معاشرت میں طرز زندگی کو بیان کیا ہے اسلامی تہذیب اپنی تخلیقی توانائیوں کی بدولت قدیم تہذیبوں پر نہ صرف غالب رہی بلکہ اپنے افسانوں میں معاشرتی اقدار کی بھر پور عکاسی ملتی ہے ۔زمانہ قدیم میں دعوتوں اور ضیافتوں کے نقشے لباس حتی کہ رسم و رواج بھی معاشرتی پہلو کی عکاسی کرتے ہیں شادی بیاہ کی رسومات زیادہ ہندوستانی تہذیب کی ترجمان ہیں ۔ ان میں مشاغل ، معمولات تقریبا ت لباس دیورات رہن سہن تہذیب ہی کی عکاسی ہے۔ شادی بیاہ اور تقریبات کی اس تہذیب میں ایک خاص وقعت اور اہمیت تھی ۔ شاہی محلات میں کپڑوں کے ڈیزائن پر کام کرنا اور بزم آرائی کا تذکرے رہتے تھے ۔ شادی بیاہ کی رسومات بالخصوص ہر دور میں عہد کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں شادی بیاہ کے موقع پر کڑھائی سلائی تکلف اہتمام اور آرائش زیبائش معاشرے کے تہذیبی امتیاز میں شامل تھی اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہے
  • وہ بیگم صاحبہ کے سامنے رنگ برنگی ساڑیوں میں سلمےستارے گوٹےکناری چمکیوں کا ڈھیر لگا ہوا ۔ ۔ ۔ ثریا ۔۔۔
  • انھوں نے بہن کو مخاطب کیا کچھ ساڑیاں میں انھوں سے بڑے سے ڈھیر کوکچھ کہتے ہوئے اشارہ کیا اس پر ماہی حال بتانا صبح سے اس پر گوٹے کی تپائی بتائی ۔ اس سرخ ساڑی پر سیاه چمکیوں کے ہیل بنائی اس ہری ساڑھی پر — صفحه نمبر پینتالیس
  • حوالہ جات
  • ڈاکٹر سید عبداللہ مقدمہ کلچر کا صلہ لاہور علی پرنٹنگ پریس ہسپتال روڈ اشاعت اول
  • ڈاکٹر خلیق ايضا
  • ڈاکٹر خلیق انجم
  • امتیاز علی قریشی
  • ايفاص
  • ايفاص
  • ايفاص
  • ايفاص

ايفاص،

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter