انتظار حسین کے ناول بستی میں تاریخی و مذہبی عناصر

مقالہ نگار : مدیحہ لشاری شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑہ

6 اپریل, 2023

انتظار حسین کا شمار بلند ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ آپ 7 دسمبر 1925 کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ 2 فروری 2016 کو 90 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پا گئے۔ انتظار حسین نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کے آپ کے والد مذہبی انسان تھے اور آپ کو مذہب کی طرف لانا چاہتے تھے۔ آپ نے آرٹس میں ہی انٹرمیڈیٹ اور آرٹس میں ہی بی اے کا امتحان پاس کیا۔ میرٹھ کالج سے ہی آپ نے ایم اے اردو کیا۔ آپ کی کتابوں میں

چاند گہن

آگے سمندر ہے

دن اور داستان

تذکرہ

بستی

گلی کوچے

کنکری

آخری آدمی

شہر افسوس

کچھوے

خیمے سے دور

خالی پنجرہ

ڈراموں میں

نفرت کے پردے

خوابوں کا سفر

پانی کے قیدی

درد کی دوا کیا ہے

رپورتاز میں دلی جو ایک شہر تھا

چراغوں کا دھواں

تراجم میں

نئی دہلی

سرخ تمغہ

سارا کی بہادری

ہماری بستی

فلسفہ کی نئی تشکیل

بازوں تنگ ناحور اور دوسرے افسانے

سفرناموں میں

زمین اور فلک

متفرق کتابوں میں

زرائے

علامتوں کا زوال

جملے اعظم

جستجو کیا ہے

قعہ کہانی

نظر سے آگے

جل گرمے شامل ہیں

آپ کو حکومت کی طرف سے ستارہ امتیاز دیا گیا۔2014 میں فرانس سے انسپئیر آف آرنڈ آف آرٹس اینڈ لیٹرز۔ انتظار حسین کا ناول بستی میں ماضی پرستی ماضی پر نوحہ خوانی کا بھرپور بیان کیا ہے۔ آپ کا فن عوامی نہیں ہے۔ آپ کے اس ناول میں تاریخی واقعات بھی شامل ہیں۔ آپ نے اپنے ناول کے ذریعے قصہ کہانی کو نیا رحجان عطا کیا۔ بستی پہلی مرتبہ 1979 میں شائع ہوا۔ انتظار حسین کے اس ناول نے 2013 میں ایک بین الاقوامی ادبی انعام تقریب میں دھوم مچا دی۔ اور پہلی مرتبہ اہل مغرب کو کوئی مشرقی ادیب پسند آیا۔ انتظار حسین کی وجہ شہرت بھی یہ ہی ناول بنا۔انتظار حسین کا جب چرچا عام ہوا تو ہر طرف انتظار حسین کے اسلوب پر بات کی گئی۔اس بارے میں گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں۔

"انتظار حسین کا بنیادی تجربہ ہجرت کا تجربہ ہے۔ تخلیقی اعتبار سے ہجرت کے احساس نے انتظار حسین کے ہاں ایک یاس انگیز داخلی وفا کی تشکیل کی ہے۔ ہجرت کا احساس اگرچہ انتظار حسین کے فن کا اہم ترین محرک ہے اس کی مثالیں گلی کوچے میں بھی حتی کے تازہ ناول بستی اور افسانہ کشتی اور نر  ناری کے تک میں مل جاتی ہیں۔”(1)

انتظار حسین مسلمان لکھاری ہیں لیکن انھوں نے ہندو تہذیب کی عکاسی کی۔ اس ناول میں انہوں نے مہابھارت جو کے ہندو کی قدیم داستان ہے اس کا بیان کیا ہے۔ انتظار حسین ہندوستانی تہذیب کو بیاں کرتے ہوئے ہندومت مذہب کا بیان بھی کرتے ہیں اور ہندو مت مذہب میں کچھوے کی علامت شیش جی کی علامت ہے اور شیش جی ایک خدا ہے ہندو مت مذہب کا بیان کرتے ہوئے انتظار حسین لکھتے ہیں

"بھگت جی ایک سادھو سے معلوم ہوتے ہیں مہابھارت سناتے ہیں  اور نون تیل بیچتے ہیں بھگت جی خدا کی آفت یعنی بھونچال کے آنے کی وجہ سے ہندومت کو قرار دیتے ہیں۔ شیش جی کے پھن پر ٹکی ہے جو کے ایک کچھوے کی پیٹ پر جمے ہیں اب جب کچھوا حرکت کرتا ہے تو شیش جی غصے میں آ جاتے ہیں اور قوم پر عذاب آ جاتا ہے”(2)

انتظار حسین اس ناول میں جہاں ہندو تہذیب کا بیان کرتے ہیں وہاں اماں جی کے ذریعے مسلم تہذیب کا بیان بھی کرتے ہیں۔ اس ناول میں اماں جی حسین مسلم کردار ہیں۔انتظار حسین نے ہابیل اور قابیل کا قصہ بھی اماں جی سے سنوایا۔ یعنی "حضرت آدم علیہ السلام  کے دو بیٹے آپس میں لڑتے ہیں یہ داستان پہلے ہی کی داستان ہے اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں مسلم تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے ذاکرے بی اماں سے ہابیل اور قابیل کی کتھا پر بھی مہر لگوائی اب اس کچے ذہن میں حسرت بھر گئی۔ ذاکر بڑے کمرے میں گیا ابا جان حکیم بندے عزیز کے سوال کا جواب دے رہے تھے کہ مولانا عنایت قیامت کب آئے گی)

اس اقتباس کو دیکھا جائے تو ہابیل اور قابیل اور قیامت کا ذکر مسلم تہذیب کی عکاسی ہے

اس ناول میں ڈھاکہ کی تاریخ میں سقوط ڈھاکہ اور ڈھاکہ میں ہونے والے فسادات کا بھرپور بیان ہے اس دور میں جلسے جلوس بجلی کے کھمبوں کا توڑ جانے والا ہر طرف نعرے ہر طرف خانہ جنگی فسادات کا ذکر ہر طرف سیاسی محفلیں یہ سب عام تھا۔ یعنی تاریخ  فسادات کی وجہ سے جو ظلم ہوئے وہ انتظار حسین نے واضح طریقے سے بیان کیے ہیں۔ انتظار حسین کی خوبی ہے کہ وہ تاریخ کا بیان بھی کرتے ہیں

وباس پور میں ذاکر کے تایا رہتے تھے ذاکر کے تایا انگریزوں کے غلام تھے۔ انگریزوں کے لئے اپنی ٹانگ قربان کی ان کی وفات پر اتنا جملہ کیا گیا جس میں ہماری کمر ٹوٹ گئی””(3)۔

اس ناول میں تقسیم ہند کے دوران ہونے والے ایسے واقعات کا بھی بیان ملتا ہے جو تاریخ کے حوالے سے بہت دردناک ہیں۔ تقسیم ہند کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو لوگوں کی عزتیں پامال ہوئی، قریبی رشتہ دار ایک دوسرے سے بچھڑے، لوگ بچپن میں بچڑے بڑھاپا آگیا لیکن مل نہ پائے۔ بندے کو اپنی آخری عمر میں بھی اپنوں کے احساس اور قرب کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتظار حسین تاریخ کے اس دور کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

 

اس حوالے سے انتظار حسین لکھتے ہیں:

”پاکستان میں ذاکر کی ماں ہمیشہ ڈھاکہ کی خبر کی منتظر ہوتی تاکہ اپنے بہن بھائیوں کی خبر جان سکے۔ طاہرہ کا شوہر بھاگ دوڑ میں ڈھالا گیا تو خالہ بھی ساتھ گئی۔ صابرہ ریڈیو کی نوکری کے سلسلے میں دہلی چلی گئی۔ نذیرہ کی دکان اس کے محلے میں تھی یہ نقشہ ذاکر کی ماں کو یاد رہے گا۔”(4)

 

1857ء کی جنگ آزادی میں ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی ہندوستان اور سکھ ایک طرف ہو گئے۔ سارے کا سارا ملبہ مسلمانوں پر آگیا۔ جلیاں نوالہ باغ امر تسر کے پٹرول پمپ کا واقعہ اور 1857ء  کی داستان بھی اس ناول میں بیان کی گئی۔

 

اس حوالے سےانتظار حسین لکھتے ہیں:

”سلامت اور کرامت کے ابو خواجہ صاحب اکثر ذاکر کے ابو مولانا ناصر علی کے پاس بیٹھا کرتے تھے اور مولانا صاحب جلیا نوالا  کی بربریت کی امر تسر کے پٹرول پمپ کا واقعہ 1857ء کی داستان ظلمت خواجہ صاحب اور ذاکر کو سناتے تھے۔”(5)

دنیا میں سب سے مشکل کام ہے اپنا وطن اپنی مٹی چھوڑنا ہوتا ہے تقسیم ہند میں سب سے تکلیف کا معاملہ لوگوں کی ہجرت ہوتا ہے۔ انسان کتنا بھی سکھی ہو اسے اپنے وطن اور مٹی کی یاد ستاتی ہے مثلا اردو ادب میں منیر نیازی کو ہجرت نے ستایا اور ناصر کاظمی کو ہجرت نے ستایا اور وہ ہجرت تقسیم ہند کی تھی۔

 

اس حوالے سے انتظار حسین لکھتے ہیں:

گھر سے کالے بال اور خاندان کے ساتھ ہجرت کو نکلا تھا پاکستان پہنچا تو بال سفید تھے ذاکر ایک کالج میں تاریخ  پڑھاتا تھا ہندوستان کی تقسیم کے میں قافلہ کا آنا جانا۔ ایک طرف ذاکر کا خاندان ہجرت کر کے آیا تھا۔ حکیم بندہ علی نے اپنے دو منزلہ مکان میں بہت سے گھرانوں کو پناہ دی مگر یہ پناہ کاغذات بنانے تک تھی۔ ذاکر اور اہل خانہ کا جس گھر میں قیام تھا سعید نے وہ گھر بھاگ دوڑ کر کے اپنڈمن نام کر لیا۔”(6)

1857ء کی جنگ آزادی میں ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی ہندوستان اور سکھ ایک طرف ہو گئے۔ سارا ملبہ مسلمانوں پر آگیا۔ جلیا نوالہ باغ امر تسر کے پٹرول پمپ کا واقعہ اور 1857ء ان کی داستان بھی اس ناول میں بیان کی

 

دنیا میں سب سے مشکل کام ہے اپنا وطن اپنی مٹی چھوڑنا ہوتا ہے تقسیم ہند میں سب سے تکلیف بھی معاملہ لوگوں کی ہجرت ہوتا ہے۔ انسان کتنا بھی سکھی ہو اسے اپنے وطن اور مٹی کی یاد ستاتی ہے مثلا اردو ادب میں منیر نیازی کو ہجرت نے ستایا اور ناصر کاظمی کو ہجرت نے ستایا اور وہ ہجرت تقسیم ہند کی تھ

 

اس ناول میں مشرقی ذہانت کا بیان بھی بھرپور ملتا ہے ذاکر نے اپنی شاگردہ تسلیم سے اظہار محبت کیا تھا جس پر اس کے ابو نے پڑھانا ہی چھوڑ دیا تھا۔ سلامت امریکہ تھا اسکالر شپ کی آفر ہوئی جس کو اس نے رد کر دیا تھا، کرامت کی چھٹی سے خواجہ صاحب کو علم ہوا۔۔۔۔ سلامت نے مشرقی پاکستان کی آزادی قرار دیا۔

 

اس ناول میں بنگلہ دیش کی تاریخ کو بھی بیان کیا گیا ہے بنگلہ دیش کی بھرپور لڑائی کو قاری تک پہنچانے کی کوشش کی گئی بنگلہ دیش کو زیادہ نقصان ہندوستان کی طرف سے آیا۔ ہندوستان بننے کی وجہ سے بنگلہ دیش ابتدا ہندوستان سے نفرت کرتا تھا۔

 

”بنگلہ دیش کی لڑائی میں ہندوستان کے جہاز گھروں کے اوپر سے گزرتے تھے امی نعت ید علی اور آیت الکرسی کا ورد کرتی تھی۔”(7)

 

انتظار حسین نے اس ناول میں تقسیم ہند سے  لے کر بنگلہ دیش کے شقوطِ ڈھاکہ کی عکاسی کی۔

اس ناول میں دوسرے مذاہب میں ہندو اور مسلمان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ دوسری تہذیبوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

بلاشبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تہذیبی ناول ہندوستان کی تہذیب کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔

 

حوالہ جات:

١۔  گوپی چندر نارنگ ذاکر انتظار حسین اور ان کے افسانے۔ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 1986ء صفحہ 10

٢۔ انتظار حسین بستی مکتب جامعہ نئی دہلی اکتوبر 1980ء صفحہ 25

٣۔ ایضاََ ص 42

٤۔ ایضاََ ص 80

٥۔ ایضاََ ص 145

٦۔ ایضاََ ص 160

٧۔ ایضاََ ص 163

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter