” فرحانہ عنبر کی شاعری کا موضوعاتی مطالعہ“

مقالہ نگار: پروفیسر آغا علی رضا یونیورسٹی آف اوکاڑہ

23 جنوری, 2023

اردو ادب کے اس نفسا نفسی دور میں جہاں غزل ختم ہوتی دکھائی دے رہی تھی حالی اور ان کے پیرو کاروں نے غزل کو دفنانے کی کوشش کی وہاں ہی غزل کے حامیوں نے غزل کو زندہ رکھا اردو غزل میں آج بھی کچھ شعراء ایسے ہیں جنھوں نے خوبصورت لفاظی کے ساتھ ساتھ غزل کو موضوعاتی سطح پر بھی زندہ رکھا اردو غزل کے ان شعراء میں ایک نام فرحانہ عنبر ہے آپ کا اصل نام فرحانہ ہے اور تخلص عنبر کرتی ہیں آپ نے نعت، حمد، غزل، نظم اور منقبت میں طبع آزمائی کی نعت کے حوالے سے آپ نے مقابلہ جات میں صف اول کی حیثیت اختیار کی آپ گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں ادبی ماحول آپ کے گھر کا خاصا تھا آپ کے دادا نصیر احمد ناصر ایک اچھے شاعر تھے آپ کی والدہ شعبہ تدریس سے وابستہ تھیں ان دونوں شخصیات کی وجہ سے آپ کو ادبی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے آپ شاعری کی طرف رغبت کر گئیں اور آپ نے لکھنا شروع کر دیا آپ کا پہلا باقاعدہ شعر یہ ہے

تھام لیتے ہیں پر دعاؤں کے

رتبے کتنے بڑے ہیں ماؤں کے

یہ شعر آپ نے میٹرک کی سطح پر کہا آپ نے تعلیم، ایم اے ایم ایڈ ایجوکیشن پر حاصل کی آپ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھتی ہیں ویسے تو اردو غزل کو دیکھا جائے تو اردو غزل میں موضوعاتی سطح پر حسن و عشق، غم، پریشانی، تصوف اور ہجر و وصال کی کیفیات ہوتی ہیں عنبر کی غزل کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک ایسی شاعرہ ہیں جنھوں نے اردو غزل کو نئے موضوعات سے نوازا یعنی وہ زندگی سے مایوس نہیں ہوتیں بلکہ ان سے لڑنے کا عزم رکھتی ہیں ان کے ہاں حسن و عشق سے ہٹ کر سماجی بیان بھی ہے اور یہ اردو غزل کو ایک نیا پن عطاء کیا. شعر ملاحظہ ہو

ہمارے حوصلے جو پست کر دے

ہر ایسی مات سے لڑنا پڑے گا

عاشق کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے میں اسے اپنا محبوب دکھائی دیتا ہے اور یہ تصوف کی علامت ہے کہ اپنے جسم اور روح کو کسی کے لیے وقف کر دینا عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی اس میں شرک کی گنجائش نہیں عنبر کی شاعری کا اگر ہم مطالعہ کریں تو ان کی شاعری میں عشق کی یہی کیفیات نظر آتی ہیں یعنی وہ اپنے آپ کے ساتھ ایسی کشمکش میں ہیں کہ اپنے عشق کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہتے عنبر لکھتی ہیں :

چشم نمناک کا اثر دیکھو

تو ہی تو ہے جدھر جدھر دیکھو

خواب اردو غزل کا پسندیدہ موضوع ہے کچھ شعراء نے محبوب کے خواب دیکھے کچھ شعراء نے قوم کے خواب دیکھے کچھ شعراء نے خواب بیچے ان شعراء میں اقبال، راشد، نظیر اکبر آبادی ان شعراء کے نام سر فہرست ہیں عنبر بھی اپنی شاعری میں کچھ ایسے ہی اپنے خوابوں کا بیان کرتی ہیں ان کے خواب قاری کو حقیقت کے قریب تر کر دیتے ہیں قاری ان کی شاعری میں خواب کو پڑھتے ہوئے ترنم کی کیفیت میں چلا جاتا ہے اس حوالے سے وہ لکھتی ہیں :

سہانے خواب کی تعبیر جیسا

وہ میرے پیار کی تصویر جیسا

ان کی شاعری کو پڑھ کر یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری ذاتی غم کا بیان ہے جس طرح میر اپنے ذاتی غم کا بیان کرتے ہیں جس طرح ناصر اپنی ذاتیات سے باہر نہیں نکلتے جس طرح منیر نیازی اپنی نفسیاتی کشمش سے باہر نہیں نکلتے اسی طرح عنبر اپنے صدمات کو اپنے اندر جگہ دیے ہوئے ہے اور وہ ان صدمات سے بے دریغ لڑتی دکھائی دیتی ہے غم کی دو طرح کی کیفیات ہوتی ہیں ایک ذاتی دوسرا سماجی غم ذاتی غم میں انسان اپنی ذات سے ہٹ کر کچھ نہیں سوچتا سماج کا جو غم ہوتا ہے وہ ہر فرد کا غم ہوتا ہے عنبر ذاتی غم کی قائل ہے اور ان کی شاعری میں ذاتی غم کا بیان ملتا ہے

مسرت کے تمھیں لمحے مبارک

ہمیں صدمات سے لڑنا پڑتا ہے

عنبر کی شاعری میں ترقی پسندیت بھی پائی جاتی ہے ان کے ہاں ترقی پسند لہجہ بھی جا بجا ملتا ہے ترقی پسند کا یہ منشور تھا کہ غربت زادوں اور مزدوروں پر لکھنا عنبر بھی شاعری میں غربت کی نفسیات کا بیان کرتی ہیں جس طرح ایک غریب لڑکی سپنے سجائے بیٹھتی ہے ایسی لڑکی کا بیان عنبر اپنی شاعری میں کرتی ہیں وہ رقم طراز ہیں

 

شاہزادی کھنچی چلی آئی

بس بنایا تھا تاج کاغذ پر

ایک اچھے شاعر کے ہاں ہجر و وصال کی کیفیت بار بار ملتی ہے محبت کا لطف یہ ہے کہ جس سے بندہ جدا ہو اس کی عزت کا خیال رکھے بغیر تہمتوں کے بغیر اس کو دعا دے عنبر گلے شکوے کی شاعرہ نہیں بلکہ دعا کی شاعرہ ہے ان کے ہاں دعائیہ لہجہ پایا جاتا ہے وہ محبوب سے گلے سڑے الفاظ نہیں بلکہ دعائیہ الفاظ سے کلام کرتی ہیں

بلکہ وہ پیار محبت سے گفتگو کرتی ہیں اس حوالے سے وہ رقم طراز ہیں

پھول تو اس کے سرہانے رکھ دیے

اور چپکے سے دعا دہلیز پر

 

ان تمام خصوصیات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عنبر نے اردو شاعری کی روایت میں بیش بہا اضافہ کیا ہے

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter