شیعہ اپنے عقائد ونظریات کے آئینے میں‎‎

ابوحماد عطاء الرحمن المدنی  المرکز المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

18 جنوری, 2023
یہ بات بہت ہی تعجب خیز ہے کہ بہت سارے سنی مسلمان دانستہ یا نادانستہ طورپر ایران کے کھوکھلے اور جذباتی نعروں کو سچ مان کر اس کی خارجہ پالیسی کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ اور ان کی حکومت دنیا بھر کے سنی مسلمانوں کا خطرناک دشمن ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جمہوریہ ایران کا بانی 14 سال فرانس میں پرتعیش زندگی گذار کر 1 فروری 1979ء کو ایران پہنچا اور 11 فروری 1979ء کو جب وہ مسند اقتدار پر بیٹھا تو اسی وقت سے ایران میں سنی مسلمانوں کا بغیر کسی جرم کے قتل کیا جانا عام سی بات ہوگئی خمینی نے بے شمار سنی علماء کو پھانسی دے دی یا انہیں تا حیات جیل میں بند کر دیا، اہل سنت کی دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں پر پابندی لگادی، ایران میں کوئی سنی عالم تفسیر نہیں لکھ سکتا، کوئی سنی کلیدی عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا، کوئی سنی ممبر اسمبلی نہیں بن سکتا، تہران میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ سنی مسلمان ہیں لیکن وہاں ان کے لئے ایک بھی مسجد نہیں ہے۔ وہ جمعہ کی نماز سفارت خانوں میں جاکر ادا کرتے ہیں، خمینی نے اہلسنت کے تمام مدارس ومساجد کو اقتدار سنبھالتے ہی شہید کردیا۔ سوال  یہ ہے کہ شیعہ لوگ آخر ہم سنی مسلمانوں سے اتنی نفرت اور دشمنی کیوں کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب تاریخی پس منظر پر غور کرنے سے مل جائے گا، پیش نظر تحریر پڑھنے سے شیعوں کی حقیقت اور ان کے چہریے پرکھنے میں مدد ملے گی۔
 اسلامی تاریخ شاہد کہ یمن کا رہنے والا یہودی  شخص عبد اللہ بن سبا اسلام سے متعلق اپنی دلی شقاوت و عداوت کو تسکین دینے کے لئے شیعہ مذہب کی بنیاد رکھی اوراسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی ناپاک کوشش کی جس میں وہ ایک حد تک کامیاب رہا اور قتل عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں کامیاب ہوکر فساد کا وہ دروازہ کھولا جو آج تک بند نہیں ہوسکا۔
علامہ ابن الأثیر رحمہ اللہ اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں لکھتے ہیں :
” عبد اللہ بن سبا اصل یہودی تھا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام قبول کر کے حجاز آگیا، پھر بصرہ،  کوفہ اور اس کے بعد شام گیا۔ اور ہر مقام پر اس نے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر جگہ ناکامی ہوئی، شامیوں نے اسے اپنے ملک سے باہر نکال دیا۔ وہاں سے یہ مصر پہنچا اور وہاں قیام پزیر ہوا پھر اس نے مصریوں سے کہا:  بڑی تعجب کی بات ہے کہ اگرکوئی یہ کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے تو لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں اوراگر حضور ﷺ کے انتقال کے بعد  آپ ﷺ کی واپسی کا کہا جاۓ تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس طرح "رجعت” کا عقیدہ اس نے گھڑا، کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات قبول کر لی۔ اس کے بعد دوسرے عقیدے کو پھیلایا اور کہا کہ ہر پیغمبر کا کوئی نہ کوئی  "وصی” ہوا ہے اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، تو جو شخص حضور ﷺ کی وصیت کو جاری نہیں کرتا، اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہوگا؟ حضرت عثمان ناحق خلافت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کی ان باتوں کو سن کر لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوۓ اور اپنےحاکم پر لعن طعن کرنا شروع کردیئے۔ ” الكامل في التاريخ لابن الأثير 154/3ط بيروت.
ابن الأثیر کی مذکورہ عبارتوں سے یہ باتیں ثابت ہوتی ہیں:
1-  عبد اللہ بن سبا یہودی تھا جو عہد عثمانی میں اسلام لایا مگر درپردہ یہودی ہی رہا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ ایک عالم اور داناۓ کتب سابقہ تھا۔
2- اس نے شیعہ مسلک کی بنیاد یوں ڈالی کہ سب سے اول مسئلہ  "رجعت” پیدا کیا اور لوگوں کو ذہن نشین کرایا جوکہ شیعہ عقائد کی جڑ ہے۔
3- مسلک رجعت کی ایجاد کے بعد لوگوں کو یہ ذہن نشین کرایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نبی کریم ﷺ کا صحیح خلیفہ اور وصی ہیں اور خلفاء ثلاثہ نے یہ حق ان سے غصب کیا ہے۔
4- یہ دونوں عقیدے ایجاد کرنے کے بعد اس نے چاہا کہ انہیں لوگوں میں عام ترویج دی جائے اس غرض سے اس نے مختلف شہروں کا سفر کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو منصب خلافت سے اتار نے کے لئے سازش کا ایک وسیع جال پھیلادیا جس میں وہ کامیاب ہوا اور نتیجتاً حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے پھر شیعوں کی بنیاد مضبوط ہوگئی۔
معتبر روایتوں سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عبد اللہ بن سبا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں "الہ” معبود ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔  انوار نعمانیہ ص: 197
اسی یہودی شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ” وجوب امامت” کا عقیدہ ایجاد کیا. رجال کشی ص: 101، عمر بن عبد العزیز الکشی۔
شیعہ کے ہاں امامت اور ائمہ کا مقام و مرتبہ:
شیعوں کے امام خمینی اپنی کتاب الحکومۃ الاسلامیۃ ص:52 پر رقمطراز ہیں: ” وإن من ضروريات مذهبنا أن لأئمتنا مقاما لا يبلغه ملك مقرب ولا نبي مرسل”.
ہمارے مذہب شیعہ کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے جو کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کو بھی حاصل نہیں۔
مزید لکھتے: "لا نتصور فيهم السهو والغفلة، أن تعاليم الأئمة كتعاليم القرآن لا تخص جيلا خاصا وإنما هي تعاليم للجميع في كل عصر ومصر إلى يوم القيامة يجب تنفيذها واتباعها”.  الحكومة الإسلامية ص: 13
ہم اپنے ائمہ سے کسی غلطی یا غفلت کا تصور بھی نہیں کر سکتے، ہمارے ائمہ کی تعلیمات قرآن کی تعلیمات ہی کی مثل ہیں۔ وہ کسی خاص طبقے اور خاص دور کے لئے مخصوص نہیں، وہ ہر زمانے اور ہر علاقے کے لئے ہیں۔ تا قیامت ان کا نافذ کرنا اور ان کی اتباع و پیروی واجب ہے۔
امام کی دس خصوصیات:
ابوجعفر الصادق کی طرف منسوب روایت ہے، قال :  ” للإمام عشر علامات: يولد مطهرا، مختونا، وإذا وقع على الأرض وقع على راحته رافعا صوته بالشهادتين، ولايجنب، وتنام عينه ولا ينام قلبه، لا يتثاءب ولا يتمطى، ويرى من خلفه كما يرى من أمامه، ونجوه كرائحة المسك والأرض موكلة” الكافي للكليني 388/1
امام پاک و صاف ختنہ کیا ہوا پیدا ہوتاہے، اور جب ماں کے پیٹ سے زمین پر آتا ہے تو آرام سے آتا ہے اور بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے،  اور اس کو کبھی جنابت نہیں ہوتی (غسل کی ضرورت نہیں پڑتی), اور کبھی جماہی نہیں آتی اور اس كو کبھی انگرائی نہیں آتی، جب سوتا ہے تو صرف آنکھ سوتی دل بیدار رہتا ہے، امام آگے اور پیچھے سے برابر دیکھتا ہے، اس کے پاخانہ سے مشک سی خوشبو آتی ہے اور زمین کو حکم ہے کہ اس کے پاخانہ کو ڈھک لے اور نگل لے۔
امام غائب کے ظہور ہونے کے بعد پہلا کام:
 باقر مجلسی اپنی کتاب حق الیقین میں رقمطراز ہے ” جس وقت امام قائم ظاہر ہونگے تو وہ کافروں سے پہلے سنی مسلمانوں اور ان کے علماء سے اپنا کام شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کر ڈالیں گے ". کتاب حق الیقین ص: 139
مزید وہ لکھتاہے: ” جب ہمارے امام ظاہر ہونگے تو وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو زندہ کرکے سزا دیں گے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقام لیں گے ” حق الیقین ص: 139
باقر مجلسی نے اسی کتاب کے صفحہ 135 پر لکھا ہے: ” امام غائب حاضر ہوکر رسول اللہ ﷺ کے روضہ کے قریب کھڑے ہوں گے اور حاضرین سے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے مزارات کے بارے میں دریافت کریں گے، اور پھر تین دن بعد قبروں کو کھدوا کر دونوں کے مقدس جسموں کو نکالنے کا حکم دیں گے۔ یہ جسم تازہ ہونگے صوف کا کفن ہوگا جس میں دفن کئے گئے تھے،  امام غائب کے حکم سے کفن اترواکر لاشوں کو برہنہ کرایا جائے گا اور ایک سوکھے درخت پر لٹکا دیا جائے گا۔ وہ درخت ان کی برکت سے سبزو شاداب ہوکر ان پر سایہ کرے گا، یہ خبر پورے مدینہ شہر میں پھیل جائے گی، لوگ جمع ہو جائیں گے۔ ان دونوں حضرات کو زندہ کرکے سخت ترین سزائیں دی جائیں گی پھر امام کے حکم سے ایک آگ آئے گی جس سے ابوبکر وعمر کی عظمت کرنے والے لوگ تباہ ہو جائیں گے، پھر امام کے حکم سے ایک آگ آئے گی جو درخت اور ان حضرات کو جلا کر راکھ کر دے گی، امام ہوا کو حکم دیں گے جو اس راکھ کو دریا میں چھڑک دے گی ".      کتاب حق الیقین ص: 135
شیعہ کے چند عقائد جن پر ان کے مسلک کی بنیاد قائم ہے:
۱-   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر اور ان کی شان میں طعن و تشنیع کرنا شیعہ کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ در اصل اس عقیدہ کے ذریعے یہ لوگ  اسلام کی اہم بنیاد پر حملہ آور ہیں کیونکہ دین اسلام تو صحابہ کرام ہی کے ذریعے لوگوں تک پہنچا ہے اور انہوں نے اس کی خاطر  اللہ کے لئے جان و مال قربان کردیا۔
 2-   شیعوں کے ہاں امامت دین کے أصول میں سے ایک اہم اصل ہے۔  درحقیقت یہ بہت بڑا غلو اور مبالغہ ہے کیونکہ دین کے تمام اصولوں کو نبی ﷺ نے واضح طورپر بیان فرمادیا اور ان میں امامت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
3-  شیعوں نزدیک  بارہ اماموں کی معرفت اور ان کے بارےمیں علم رکھنا اصول دین میں سے ہے اور جس کے پاس ان کی معرفت نہیں وہ کافر ہے۔
4-  ان کے ہاں سارے ائمہ معصوم عن الخطا ہیں حتی کہ وہ بھول و چوک سے بھی پاک ہیں، نبیوں اور رسولوں پر انہیں بے پناہ فوقیت حاصل ہے۔
5-  اماموں کے تعلق سے ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کے پاس غیبی أمور کا علم ہےاور کائنات کے ذرہ ذرہ میں ان کا تصرف ہے۔ یہ تو بڑا صریح کفر ہے کیونکہ انہوں نے  علم غیب اور تصرف کائنات میں  اماموں کو اللہ تعالیٰ کے برابر کردیا ۔
6-  ان کا جھوٹا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی لیکن صحابہ کرام نے  یہ حق حضرت علی سے غصب کرلیا۔ یقینا روافض کایہ دعوی بے بنیاد اور جھوٹا ہے ۔ اسی وجہ سے شیعہ لوگ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے اور ان سے بغض وعداوت اور نفرت کا برملا اظہار کرتے ہیں۔۔
7-  شیعہ کے بنیادی عقائد میں سے یہ بھی عقیدہ ہے کہ  مہدی منتظر سرداب(سرداب غیبت امام حسن عسکری کے گھر کے تہہ خانہ کو کہا جاتا ہے جو سامرا میں حرم عسکریین کے شمال میں واقع ہے۔ شیعوں کے نزیک یہ مقام خاص تقدس کا حامل ہے۔ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ ان کے بارہویں امام، امام مہدی غیبت کے زمانے میں اسی سرداب میں زندگی گزار رہے ہیں اور اسی جگہ سے ظہور کریں گے۔) میں چھپے ہیں۔ یہ لوگ ان کے ظہور کا انتظار ۱۳۰۰ سال زیادہ سے کر رہے ہیں، اور ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہی بارہواں امام غائب ہیں۔  جب کہ حقیقت میں جس مہدی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے وہ بالکل سچ ہے لیکن وہ یہ نہیں ہے جس کے بارےمیں روافض نے قصہ گھڑ لیا ہے ۔ موسی بن جعفر (ت ۱۸۳ھ) نے اپنے ہم عصروں سے فرمایا: ” اگر زندہ رہوگے تو تم ضرور اسے پالو گے ”  اس وعدہ پر 1249 سال بیت چکے لیکن لیکن کوئی شیعہ ابھی تک اسے نہ پاسکا،  جس سے ثابت ہو تاہے کہ موسی بن جعفر پر یہ واضح جھوٹ اور بہتان ہے۔
8-   شیعوں کے اصول ایمان میں سے رجعت کا بہت اہم عقیدہ ہے۔ جو شخص  اس پر ایمان نہ رکھے وہ کافر ہے۔ الآلوسی فرماتے ہیں: ” اہل السنۃ کا مذہب ہے کہ قیامت سے پہلے فوت شدگان میں سے کوئی اس دنیا میں دوبارہ نہیں آۓ گا،  اور روافض میں سے امامیہ اور دوسرے فرقوں کا کہنا ہے کہ بعض فوت شدگان قیامت سے پہلے اس دنیا میں دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، ان کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی و حسن وحسین اور ان کے دشمنان یعنی تینوں خلفاء راشدین، معاویہ، یزید، مروان اور ابن زیاد وغیرہم، اسی طرح دوسرے ائمہ  اور ان کے قاتل  ظہور مہدی کے بعد زندہ کئے جائیں گے اور دجال کے ظہور سے قبل انہیں سزا دی جائے گی، ان سے قصاص لیا جائے گا، پھر وہ مر جائیں گے اور قیامت کے دن اٹھاۓ جائیں گے "مختصر التحفۃ الاثنى عشریۃ، ص: 200
9-  ان کے بنیادی عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام نے قرآن مجید میں تحریف کردی۔ یہ شیعوں کی طرف سے صحابہ کرام پر جھوٹا الزام ہے، قرآن مجید سے ایک کلمہ یا حرف صحابہ کرام نے تحریف نہیں کیا اور ایسے کاموں سے صحابہ کرام کی ذات بالکل پاک ہے، بلکہ خود شیعوں نے قرآن مجید کے الفاظ ومعانی میں  تحریف کیا ہے اور خاص کر  وعدو وعید اور کفار و منافقین کے بارے نازل شدہ آیتوں کو صحابہ کرام پر چسپاں کرتے ہیں۔ اور صحیح معنوں میں روافض ہی ان آیتوں کے حقدار ہیں۔
10-  ان کے عقائد میں سے تقیہ بہت اہم ہے، جس کے پاس تقیہ نہیں اس کا دین نہیں، ابو جعفر الصادق کی طرف یہ قول منسوب ہےکہ انہوں نے فرمایا:       ” اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے لئے دین میں تقیہ کو پسند کرتا ہے ” اور یہ بھی قول منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:” تقیہ میرا اور میرے اباواجداد کا دین ہے اس کا ایمان نہیں جس کا تقیہ نہیں ”  الکافی للکلینی ۲/ ۲۱۷- ۲۱۸
11- ان کے مذہب میں قبروں کو پختہ کرنا رنگ و روغن سے مزارات کوچمکدار بنانا ضروری ہے بالخصوص ائمہ کی قبروں کو، اور قبروں کا طواف کرنا مردوں سے مدد طلب کرنا اور مرادیں مانگنا نذرونیاز پیش کرنا ان کی چوکھٹوں پر مال ودولت نچھاور کرنا نیک اعمال ہیں۔  جبکہ ان کے یہ اعمال شرک اکبر میں داخل ہیں۔
12- ان کے مذہب میں نکاح متعہ کی فضلیت اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاص موقع پر ضرورت کے پیش نظر اجازت دی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح سے منع فرمادیا  اور تا قیامت یہ نکاح حرام ہے، حرمت نکاح متعہ کے راویوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہیں، شیعوں نے حضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی اعتبار نہیں کیا اور نکاح متعہ کو حلال کرلیا اور اس کی فضلیت میں ایسی ایسی روایتیں  بیان کرنا شروع کردیں کہ جنہیں عقل وشریعت کلی طورپر مسترد کرتی ہے۔ ان بیہودہ روایتوں میں سے ایک یہ بھی ہے :”  جس نے کسی مومنہ عورت سے متعہ کیا گویا اس نے ۷۰ مرتبہ کعبہ کی زیارت کی”  اور ایک روایت ابو جعفر صادق کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : متعہ میرا اور میرے آباواجداد کا دین ہے پس جس نے متعہ کیا اس نے ہمارے دین پر عمل کیا اور جس نے متعہ سے انکار کیا اس نے ہمارے دین کا انکار کیااور وہ کسی دوسرے دین پر چلا اور اس کو اختیار کیا” متعہ اس طرح سے ان کے  مبادی دین اور اصول میں سے ہے  جس پر عمل نہ کرنےےوالا ان کے نزدیک کافر شمار ہوتا ہے۔
اسی طرح بعض روایتیں ان کے نزدیک اس طرح بھی آئی ہیں: ” جس نے ایک مرتبہ متعہ کیا وہ حسین علیہ السلام کے درجہ کو پالیا اور جس نے دو مرتبہ متعہ کیا حسن رضی اللہ عنہ کے رتبہ کو پالیا اورجس نے تین مرتبہ متعہ کیا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درجہ کو پہنچ گیا اور جس نے چار مرتبہ متعہ کیا وہ میرے برابر ہوگیا”.
 واضح رہے کلمہ علیہ السلام ان کی شیعوں کی خودساختہ اصطلاح ہے، درست یہ کہ کسی صحابی کے لئے رضی اللہ عنہ اور اگر کوئی تابعی اور دیگر لوگ ہیں تو رحمہ اللہ کہنا ہے۔
شیعوں کے تعلق سے یہ بہت ہی مختصر باتیں ہیں ورنہ ان کی ساری گمراہیاں بڑی بڑی مجلدات میں محفوظ ہیں۔
ابوحما عطاء الرحمن المدنی
المرکز المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter