نوید صبح کا پیام بر (ڈاکٹر جاوید آغا)

مقالہ نگار (پروفیسر آغا علی رضا)

20 دسمبر, 2022

نوید  صبح    کا  پیام  بر

جب سے اردو غزل میں عشق،رومانس ،پیار ،انس ،جدائی اور وصال کت تذکروں پر غم دنیا غالب آیا ہے اردو شاعری خصوصاً غزل کی نمو میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جاوید آغا بھی اسی نفسا نفسی سے مزین معاشرے کا فرد ہیں وہ اس افتاد زمانہ سے کیسے محفوظ رہ سکتے تھے جس کا بچپن خود غم روزگار کی نظر ہوا۔ اس لمحے جب انہیں کھلتے پھولوں اور آسمان سے برستی بوندوں کی چاشنی سے آشنا ہونا تھا وہ فن موسیقی کے اسرار ورموز سیکھنے میں مصعوف تھے بقول ندیم حیدر بلوچ ” کہ بچپن کت بعد آ گیا ہے بڑھاپا ، کسی نے نہ دیکھی ہماری جوانی”۔  جاوید آغا کی قلبی وارداتوں کے ساتھ جو رنگ ہمیں غزل میں نمایاں نظر آتا ہے وہ معاشرتی رویوں ، بے اصولی پر مبنی اصولوں اور حقائق سے پر خیالات ہیں کہیں کوئی پری ان کے خوابوں میں نہیں اترتی، کوئی پھول کی پتی ان کے عارض پر گر کر سلام نہیں کرتی ہیں ۔استبدار زمانہ کی تلخیاں اپنے لفظوں کے بت تلاشتی ملتی ہیں ۔

منزلیں سر کس طرح ہوتیں ، مہماتی نہ تھے

لوگ تھے، میری طرح پر لوگ جذباتی نہ تھے

عمر بھر تنہا لڑا ہوں جن کے حل کے واسطے

وہ مسائل اجتماعی تھے میرے ذاتی نہ تھے

موت دے دے اس سے پہلے کہ میرا نور چیں بدن

پر کٹا شاہی ہوں چیلوں نے گھیرا ہے مجھے(1)

معاشرے میں بدامنی، دہشت گردی اور دوسروں کو ختم کرکے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نے جاوید آغا کی روح کو بھی زخمی کیا۔ انہوں نے عملی زندگی میں کسی کو پیچھے دھکیل کر آگے آنے کی کوشش نہیں کی  مگر وہ لوگ جو ان کی سوچ کی پرواز کا مقابلہ نہ کر سکے  ان کے نشتر ان کی روح کو گھائل کرتے رہے ان کی غزل میں ایسے شکوے جا بجا نظر آتے ہیں۔

یہ سب ہی جانتے ہیں امن کے داعی ہیں ہم آغا

ہماری سوچ ہابیلی ہے کابلی نہیں ہوگی

ابھی سوچا ہی تھا ہم نے کے ٹکرائیں چٹانوں سے

زمین کو پھاڑ کر باہر نکل آئے مکانوں سے (2)

کئی دانشور کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس دنیا میں اس سے کوئی بڑا منافق نہیں جو ظلم تو سہ رہا ہے  بغاوت نہیں کررہا مگر جاوید آغا اس فکر کے مالک نظر نہیں آتے وہ کتابی باتوں کو لے کر آگے نہیں بڑھے یعنی انہوں نے تقلید کو اپنا رہبر نہیں بنایا بلکہ جو تن پر بیتی اور روح میں اتر گئی وہ الفاظ میں ڈھلی اور غزل ہوگئی۔  کیا معاشرے کی بے حسی اور ظلم سہنے کی عادت سے نظر چرا کر جینے والے لوگ زندہ ہیں۔ کوئی شاعر بھی ہو اور اس پر زمانے کی بے حسی  اثرانداز نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جاوید آغا نے معاشرے کو جب اپنے خیالات سے مختلف پایا اپنے اسلاف کے خیالات کی پاکیزگی سے مبرا اور نئی معاشرت کے اصولوں سے آلودہ پایا تو پھر چپ نہیں رہے۔

زبانیں گنگ ہے آندھی ہیں آنکھیں کان بہرے ہیں

کوئی انصاف کیا مانگے بھلا ان بے زبانوں سے(3)

جاوید آغا تاریخ میں بسنے والے ایسے شخص ہیں جو تاریخ کے دہرائے جانے کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ایسے وقت کا مسافر اور متلاشی جب ہر طرف پیار ، اخوت اور بھائی چارے کا دور دورہ تھا، تو دو وقت کی روٹی کمانے والے مل بانٹ کر کھاتے اور کچے مکانوں میں مل کر رہتے تھے۔ زمانے کی کشیدگی ان کے خیالات کو سوالات بنا کر الفاظ میں لے آئی۔ ہم جس ماحول اور معاشرے کے پروردہ ہیں یہاں ذات برادری اور نسل پرستی کا دور دورہ نیا نہیں لیکن اخلاقیات کی بلندی مثالی رہی ہے۔ منہ بولی بہن مولا بھائی اور اس جیسے انمول رشتے نبھاتے کردار ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے چند عشرے پیچھے پلٹنا ہوگا، مادی ترقی نے جس اخلاقی انحطاط کو جنم دیا ہے اس نے سب کچھ کچل کر رکھ دیا ہے۔

وہ جس نگری میں امن و آتشی کا درس ملتا تھا

وہاں بھی پل میں تلواریں نکل آئیں میانوں سے(4)

معاشرے کا معمول تو یہ ہے کہ کمزور کو سر اٹھانے کی اجازت نہ دی جائے اگر بات کرے تو زبان کاٹ دو، آنکھ اٹھائے تو آنکھ نکال دو، لیکن ہر ظلم و جبر کی فضا میں مظلوم کی سختیوں کے آگے بند باندھنے کا یارا کسے ہے، کوئی جبر کے ہاتھوں مجبور ہوکر اشکوں کے دریا بہاتا ہے تو کوئی عشق میں چوٹ کھا کر اپنی مخروطی ڈھلانوں کے چشمے کو سوکھنے نہیں دیتا۔دکھ کا اظہار کبھی سیکھنا نہیں پڑتا بلکہ یہ قدرت کی عطا ہے جسے شکم مادر سے بچہ سیکھ کر آتا ہے۔ شروع میں بچہ صرف رونے سے کام چلا کر اپنی ضرورت پوری کرتا ہے اور پھر یہ رونا اسے ندامت آمیز کر دیتا ہے

یہ چشمے اپنی آنکھوں کے کبھی بنجر نہیں ہوتے

رکا ہے کب بتا پانی یہ مخروطی ڈھلانوں سے(5)

محبت میں آسمان سے تارے توڑنے اور چاند لاکر جھولی میں ڈالنے کے مکالمے شاید اب دم توڑ چکے ہیں مگر محبت میں جان دینے کا سلسلہ ابھی تک نہیں رکھا اس زمانے سے شکست کھانے والے اور حالات کے آگے نہ ڈٹ سکنے والوں کا آخری رستہ جان دینا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ جان دینا آسان ہےڈٹے رہنا مشکل ہے اس لیے اکثر عشق میں جان سے جانے کی ہمت کرنے والے خود کو شاباشی دیتے نظر آتے ہیں حالانکہ پیار کا جذبہ لذت آشنائی سے یوں مخمور کر دیتا ہے کہ کسی اور جذبے کا گزر نہیں ہو پاتا  جو لوگ تن کو پا لینے کا نام عشق کی معراج سمجھتے ہیں ان کی ناکامی موت پر ختم ہوتی ہے اور جو پیار کے لطیف جذبے کو تن کی آسوگی سے مبرا سمجھتے ہیں وہ اکثر مجاز سے حقیقت کا رخ کر جاتے ہیں۔ جاوید آغا کومحبت میں جان دینے کے مکالمے معاشرتی رویوں کی دوائی کا احساس دلاتے ہیں۔ جاوید آغا نے جس طرح زندگی کو برتا یا زندگی نے ان کی جس طرح تربیت کی اس میں کہیں بھی کتابی محبت کا گزر نہیں ہو سکا اسی لیے جاوید آغا کے ہاں محبت میں جان دینے یا بچھڑ کر مر جانے کی باتیں دوسرے شعرا کی نسبت بہت کم ملتی ہیں بلکہ وہ ان مکالموں کو حیرت کی نظر سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔

مجھے محبت ہے جان دوں گا، بچھڑ کر مر جاؤں گا آغا

مکالمے مدتوں سے اس نے رٹے ہوئے ہیں عجیب ہے نا(6)

حبیب جالب نے حکومت وقت کو للکارہ اور امر ہوگئے مگر جاوید آغا نے اپنے اردگرد بسنے والے کروڑوں ایسے لوگوں کے دلوں کی باتیں کہی ہیں جو عام لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ اگر وہ جھکے تو مخالف انہیں توڑ ڈالے گا اگر ڈٹے رہے تو طاقتور انہیں روند ڈالے گا کبھی وہ مصالحت کا شکار ہوتے ہیں کبھی مصالحت کے ہاتھوں اپنی روح چھلنی کروا بیٹھتے ہیں ۔ جاوید آغق پنجاب کی دھرتی کے سپوت ہیں، پنجاب کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ اس کے بسنے والے طاقت ور کے ساتھ ہو جاتے ہیں لیکن جاوید آغا نے اپنی غزلوں میں جا بجا اس رویے کی نفی کی ہے بلکہ انھوں نے امام عالی مقام حسینؒ ابن علیؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جبر کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہونے کو فتح سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے ہمیں جاوید آغا کی غزلوں میں جرات اور بہادری کا اظہار لمحہ بہ لمحہ ساتھ لے  کر چلتا نظر آتا ہے۔ موت سے ڈر کر جھوٹ بولنے والوں اور معافی طلب کرنے کے خواہاں لوگوں کے دلوں کی رمز سے آشنائی ان کی افتاد زمانہ سے لی گئی تربیت کا ہی نتیجہ دکھائی دیتی ہے۔ جاوید آغا کی غزلوں کے کئی اشعار ان کی مقابلہ کرنے کی طبیعت کا عکس نظر آتے ہیں مگر ایک غزل ایسی ہے جس کا ہر شعر ان کے نظریات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔

زباں پہ سچ تو پہ جان رکھتا ہوں

میں اپنے پاؤں کے نیچے چٹان رکھتا ہوں(7)

شاعر جتنا بھی انقلابی ہو جائے یا مزاح نگاری کی طرف نکل جائے صنف نازک کی صنائی اس  سفید عارض، قرب کے لمحات کی نشاط انگیزی اور جدائی میں یادوں کی کھٹی میٹھی مہک اشعار میں ضرور دیتی ہے ۔ جاوید آغا نے اپنی غزل کو اپنے نظریات اور اخلاقیات کے طلسم سے آزاد نہیں ہوئے۔ محبوب کی جانب سے خود کو جسم میں روح کی مثال دینے کے باوجود فاصلے برقرار رکھنے کی روش دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ محبت کے اظہار کو معیوب نہیں سمجھتے ۔ جاوید آغا کے ہاں عامیانہ پن دکھائی ضرور دیتا ہے مگر اتنا نہیں جتنا آج کے شعر کہنے والوں میں نظر آتا ہے ۔

مجھے تم سے محبت ہے اسے کہنے میں ہچکچاہٹ کیسی

حقیقت بھی یہی ہے بات معیوب بھی کوئی نہیں ہے (8)

تاریخ کے اوراق جس خون کی روشنائی سے سنہرے ہوئے وہ جرات،  انقلاب اور زجذبہ   سے مخمور  ماہ و سال ہیں جس طرح ٹیپو سلطان کے جسد اقدس کے قریب انگریز اس وقت  تک  رہے    جب تک تلوار ہاتھ سے نکل کر ان کی موت کی گواہ نہ بنی اسی طرح جاوید آغا بہادری کی داستان  کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں ،    بے بسی کی تصویر بنے  شاہین کو کسی گدھ کے ہاتھوں مرتے دیکھنا   گوارا نہیں یہ مایوسی میں بھی خودکوشاہین  ہی  سمجھتے ہیں اتنا ضرور ہے کہ مایوسی انہیں   خود کو پر کٹا شاہین بننے پر مجبور کر دیتی ہے  لیکن وہ اس بے بسی میں بھی اپنے مالک کے حضور التجا کرتے ہیں کہ مجھے مالک موت دے دے اس سے پہلے کہ گدھ میرا بدن نوچ ڈالیں   میں پرکٹا  شاہین  ہوں   مجھے چیلوں  رکھا ہے۔    کل تک جس سلطنت کا بادشاہ  ا ٹھ  کر میرا استقبال کرتا تھا آج اس کے حاشیہ نشینوں نے مجھے کمزور پاکر گھیر لیا ہے۔   کمزور کا دین    و  مذہب  ،  سوچ ونظریہ،  افکار  و  اخلاق   کچھ بھی نہیں ہوتا،   کمزور قو میں اقدار اسی لئے فراموش کر دیتی ہیں کہ فاتح  ان کے احساس کو نوچ ڈالتے ہیں

کل  اس سے پوچھ کے سورج افق سے پھوٹتا تھا

یہ گردبالوں میں جس کے ہے پا برہنہ ہے (9)

جاوید آغا کی شاعری میں کہیں کہیں اتنی مایوسی نظر آتی ہے کہ حبس محسوس ہونے لگتا ہے۔   نا امیدی ،  انصاف نہ ملنے  ،   ظلم  و زیادتی کی آغوش میں معاشرے کی بے بسی الفاظ میں ڈھلی نظر آتی ہے اگرچہ ناامید ہونا کچھ اچھا نہیں لگتا  مگر یہ ایک ایسی زندہ حقیقت ہے جس سے رخ موڑ نا   شاید کسی کے لئے ممکن نہیں۔   یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ظلم ہوتا دیکھے اور اس پر اپنے محسوسات کا رد عمل ظاہر نہ کر پائے ۔   ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکتا تو کم از کم اس ظلم اور ناانصافی پر چند آنسو ہی بہا دے۔   ظالم کا کام تو وہ سر وں  کے جذبے روند کر اپنی خواہشات کے محل تعمیر کرنا ہوتے ہیں۔    مظلوم کی چیخیں جب معاشرے کے بہرے  کانوں  پر اثرانداز نہ ہوں   تو پھر مایوس ہونا کچھ عجیب محسوس نہیں ہوتا ۔  کبھی مایوس ہونا اور کبھی ظلم و جبر آدمی کی علامت ہے

گلی کے آخری اس کارنر سے بہت  چیخیں سنائی دیں، بہت قدموں کی چاپیں بھی

کھلا کوئی بھی دروازہ نہیں تھا یہ تم بھی جانتے ہیں ہم بھی جانتے ہیں

سبھی ہونٹوں پر قصاص سسکیاں تھیں،سبھی آنکھوں میں آنسو تھے،نجانے کیا ہوا آغا

کسی چہرے پہ اب غازہ نہیں تھا، یہ تم بھی جانتے ہو یہ  ہم بھی جانتے ہیں(10)

جاوید آغا کا پیار ماضی کی معروف لوک داستانوں کی طرح نہیں اس میں حقیقت پسندی جابجا نظر آتی ہے کہیں کہتے ہیں کہ ایک ہلکی سی مسکان کی خاطر کوئی پہاڑ کاٹنے بیٹھ جائے یا کسی ممتاز کی خاطر کوئی تاج محل کیوں بنوائے۔ وقت نے میرے بت کو ایک ایسے چوک میں نصب کر دیا ہے جس کی ایک جانب ندیاں بہتی ہیں اور دوسری طرف سائے رقصاں ہیں۔ کبھی اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ پیار میں دعوے کرنے والے صرف باتیں بناتے ہیں تارے توڑنے والوں نے کب کہیں تارے توڑے ہیں۔

تخلیق کے خال و خد اجالے کی طرف سنجیدگی اپنی مٹی کی خوشبو کو محفوظ کر لینے کا جذبہ اور جذبے کے ساتھ ساتھ تلمیحی شاعری کے حوالے سے علامتی نظام صرف مختلف نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک جو سوکھا پیڑ ہے اس کی سوکھی جڑوں کی آبیاری اور دوبارہ ہریالی کی نمو کی خواہش ان کی شاعری میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔                                      حوالہ جات 1 ڈاکٹر جاوید آغا ،کون کسی کا ہوتا ہے ،راز پبلی کیشنز لاہور 2015،ص 21۔                     2 ایضاء ص 51

3 ایضاء ص52

4 ایضاء ص 52

5 ایضاء ص 52

6 ایضاء ص 29

7 ایضاء ص 26

8 ایضاء ص 27

9 ایضاء ص 31

10 ایضاء ص 31

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter