مسعود حسن رضوی ادیب اور ہماری شاعری معیار و مسائل تحقیقی و تنقیدی جائزہ

مقالہ نگار :علی رضا یونی ورسٹی آف اوکاڑہ پاکستان

11 دسمبر, 2022

 

سید مسعود حسن رضوی ادیب اردو ادب کے ناقدین کی صف اول میں شامل ہیں آپ اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے معلم ہیں آپ نے تنقید شعر، اردو ڈرامہ اور اردو تذکرہ نگاری پر طبع آزمائی کی آپ کی ولادت ٩ جولائی ١٨٩٣ء ہے آپ کے آباؤ اجداد ایران سے ہندوستان ہجرت کر کے آئے آپ کے والد کا نام حکیم سید مرتضیٰ تھا جو پیشے کے لحاظ سے طبیب تھے جس طرح سادات گھرانے کی روایت ہوتی ہے کہ سید زادے بچپن میں عیش و آرام اور لطف کی زبان زندگی گزارتے ہیں اسی طرح آپ کا بچپن بھی لطف بھری زندگی میں گزرا بچپن میں آپ کو پتنگ بازی کا بہت شوق تھا لیکن گھر کی طرف سے آپ کو پتنگ اڑانے کی اجازت نہ تھی ابتدائی تعلیم آپ کی لکھنؤ سے ہے آپ ١٩٠٨ء کو تعلیمی سلسلہ میں لکھنؤ آئے اور آپ  کا شمار حسن آباد ہائی اسکول کے اچھے طالب علموں میں ہوتا ہے تعلیمی سلسلہ کے بارے میں ڈاکٹر صفدر لکھتے ہیں :

ادیب صاحب کی اتحاد مران کچھ ایسی ہے کہ روز مرہ کی باتوں میں بھی ان کے یہاں شمہ بر ابر بھی افراط و تفریط یا بے احتیاطی نہیں ہوتی۔ آج سے تیس پینتیس سال پہلے جو بات انہوں نے کی تھی، اگر آج بھی وہ اسے دہراتے ہیں تو بلا کم وکاست وہی لفظ، وہی بات بلکہ جملوں اور لفظوں کے ادا کرنے کا لہجہ بھی دہی ہوتا ہے جو اس وقت تھا۔ یہ ان کے تحقیقی مزاج ، سلامتی طبع اور حافظے کی ایسی خصوصیت ے و الا اور علی کان میں نکلے گی۔“

” حوالہ نمبر ١ “

 

میٹرک کے بعد انٹر کی تعلیم کے لیے کنگ کالج لکھنؤ کا انتخاب کیا. انٹر میں آپ کے حالات تو ناساز تھے ہی لیکن آپ نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا آپ کا شوق انگریزی اور فارسی میں تھا جس کی وجہ سے آپ نے انگریزی ادب کو پڑھنا شروع کر دیا آپ نے ادبی زندگی کا آغاز بطور مبصر کیا اور کیٹلاگ ڈیپارٹمنٹ الہ آباد میں تین سال اسی حیثیت سے کام کیا اور آپ نے دس ہزار کتابوں کا مطالعہ کر لیا تھا یہ زمانہ ١٩١٨ء کا تھا آپ کی پہلی کتاب بطور مترجم ١٩٢١ء میں شائع ہوئی اور اس کتاب کا نام امتحان وفا تھا اور یہ انگریزی لکھاری ٹینی سن کی نظم اینکاآرڈبن کا ترجمہ تھا آپ کو فارسی سے بھی لگاؤ تھا اس لیے آپ ١٩٢٣ء میں شعبہ فارسی میں لیکچرار مقرر ہوئے اور اسی دوران آپ نے ایم اے فارسی کا امتحان پاس کیا ١٩٢٧ء میں آپ لکھنؤ میں سینئر لیکچرار کے طور پر منتخب ہوئے اور فارسی کی تڑپ کو کم کرنے کے لیے آپ نے ١٩٣٣ء ایران اعراق کا سفر کیا اس حوالے سے آپ خود لکھتے ہیں :

مجھے اردو اور فارسی کیا ہیں جمع کرنے کا نوال ہی نہیں ات ہے۔ اس دھن میں لکھنو کی گئی

گلی کی خاک چھانی، کونے کونے کی تلاشی لی اور جو پہلے پرانے ورقی کسی پرانی کتاب کے ہاتھ

آئے انہیں عراق کے ہاتھوں سے سمیٹ لیا۔“

” حوالہ نمبر ٢ “

 

آپ ٨٢ سال کی عمر میں ١٩٧٥ء کو وفات پا گئے ۔

آپ کی کتابوں میں امتحان وفا، ہماری شاعری، معیار و مسائل، فرہنگ امثال، دبستانِ اردو، فیض میر، مجالس رنگین روح انیس، شاہکار انیس، رزم نامہ انیس، شاعر اعظم انیس، اسلافات میر انیس، متفرقات غالب اور آب حیات کا تنقیدی مطالعہ ۔

تنقید عربی زبان کے لفظ نقد سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کھرے کا کھرا کھوٹے کا کھوٹا کر دینا اصلاحی معنی میں کسی بھی فن پارے کی خوبیاں اور خامیاں الگ کر دینا تنقید ہے ۔ ہماری شاعری، معیار و مسائل مسعود حسن رضوی کی تنقیدی تصنیف ہے اس کا سن اشاعت ١٩٢٨ء ہے یہ کتاب انھوں نے مقدمہ شعرو شاعری از الطاف حسین حالی کے جواب میں لکھی یہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ ہماری شاعری کے معیار پر مبنی ہے دوسرا مسائل پر پہلے حصے میں شعر کی عظمت شعر کی حقیقت شعر کی ماہیئت شعر کا معیار شعر کی معنویت پر مبنی ہے رضوی کہتے ہیں کہ کلام موزوں شعر ہے اور شعر وہ ہوتا ہے جو معیار پر پورا اترے اگر کوئی دنیا میں واقعہ ہو رہا ہے اس کو ہم شعر کی صورت میں قلم بند کر دیں گے تو وہ دل کو متاثر نہیں کرے گا حالی کی اصلاحی شاعری اس نظریے پر پورا نہیں اترتی اس حوالے سے نسیم قریشی لکھتے ہیں :

پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کی ساری عمر مشرقی شعر وادب کے بہت سنجیدہ مطالعے میں گزری ہے انہوں نے بڑے ریاض و صحت سے اردو شاعری کے حسن باطن تک رسائی حاصل کی اور ممبری مدردی کے جوش میں ادب کر اسے بے نقاب کیا ہے۔ ان کی مشہور کتاب “مقدمہ شعر و شاعری “ ان یا حال معرفی کار آفرین ان دور کرنے والی او از گری با رای طرح راستے کراتی ہے۔“

” حوالہ نمبر ٣ “

 

شعر میں سادگی سے مراد الجھاؤ نہیں ہے شعر میں بلندی سے مراد عجیب و غریب معاملہ نہیں ہے شعر میں باریکی شاعر کے مطالعہ کائنات سے آتی ہے شعر میں تڑپ جذبات سے آتی ہے شعری اسلوب کے مطابق مسعود حسن رضوی ادیب کہتے ہیں کہ مصنف کا کام معنی خیزی پیدا کرنا ہے شعر میں تازگی اور جدت کے عناصر بھی ہونے چاہئیں اور ہماری شاعری ان خوبیوں سے بالا تر ہے کلام میں سادگی اختصار، زور الفاظ کے انتخاب، شاعر کے اپنے بس میں ہوتا ہے کہ وہ کلام میں کیا کرتا ہے اس حوالے سے اسماعیل میرٹھی مسعود حسن رضوی ادیب کے بارے میں لکھتے ہیں :

” طرز بیان شماره اند در بیان میں بار مطالب میں تازگی اور ہو تے ہے۔ کیا یہ ہے کہ خوابید

حالی کے مقدمے کے بعد اس موضوع پر جس قدر کتا بیں شائع ہوئیں ہماری شاعری ان سب سے زیادہ

کامیاب تصنیف ہے اور ہر حیثیت سے مقدمہ شعر و شاعری کے ہم پلہ ہے۔ اگر خواجہ حالی زندہ ہوتے تو

جاری شاعری کی دل کھول کر داد دیتے۔“

” حوالہ نمبر ٤ “

 

مسعود حسن رضوی ادیب اس کتاب میں لفظ اور معنی کی بحث بھی کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ شعر میں فصاحت اور معنی پیدا کرنے کے لیے شعر کو تنافر حروف سے دور رکھنا چاہیے شاعری میں جدت اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب الفاظ کو خیالات کے مطابق ترتیب دیا جائے کلام میں کوئی ایسی بات کہنا جو معنی ہی نہ رکھتی ہو اس سے گریز کرنا چاہیے چونکہ ہماری شاعری میں صنعتیں رواج پا گئی ہیں اس لیے الفاظ کی قدر و قیمت نہیں رہی کلام اسی صورت میں جدت پائے گا اسی صورت میں الفاظ کا صحیح استعمال معنی کے لحاظ سے استعمال کیا جائے گا شعر میں موسیقیت بھی الفاظ کی بنا پر ہوتی ہے اگر الفاظ کا بہترین استعمال ہی نہیں ہوگا تو شعر میں موسیقیت ہی نہیں ہوگی الفاظ کے ردو بدل سے شعر میں صوتی آہنگ اور موسیقیت کی کمی ہوگی لوگ اچھے خیال کو برتنے میں الفاظ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں :

اری اور کی جنگ ہو نے کی حلقہ صورہ میں ہو سکتی ہیں کر کام کی اہلی کو دو سروں سے روانی اور پا رہا ہوں پر اثر انداز سے اور کمرے، منتشر خیالات کو کسی خاص ترتیب سے پیش کرے، دوسروں کے مبہم اور دھندلے خیالات کو واضح اور روشن کر دے، کوئی بات اس طرح بیان کرے کہ اس کا اثر دوسروں کے بیان سے مختلف ہو جائے، پرانے خیالات کو اس طرح ادا کرے کہ وہ نئے معلوم ہونے لگے، فرسودہ مضامین کو یوں باند ھے کہ ان میں تازگی کی کیفیت پید اہو جائے تو ان سب صورتوں میں اس کے کلام کو جدت کی صفت سے متصف کھنا چاہیے۔”

” حوالہ نمبر ٥ “

 

کتاب کا دوسرا  تنقیدی حصہ شاعری اور اس پر ہونے والے اعتراضات پر ہے اردو شاعری پر پہلا اعتراض محدود ہونے کا ہے مسعود حسن رضوی ادیب لکھتے ہیں کہ ہماری شاعری محدود نہیں ہے اس کے علاوہ شاعری پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ شاعری میں صرف حسن و عشق کے معاملات ہوتے ہیں اردو غزل کی شاعری حسن و عشق کی بنیاد پر ہے ہماری شاعری کو حسن و عشق اور عورت تک ہی محدود ہی نہیں کیا گیا ہماری شاعری میں علامہ اقبال کی شاعری کو دیکھیں تو اس میں حسن و عشق کا بیان نہیں ہے اس قسم کے تمام اعتراضات کا جواب مسعود حسن رضوی ادیب نے دیا اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں :

جولوگ صرف چند مضمونوں کو ہماری شاعری کی کل کائنات سمجھتے ہیں وہ اس غلط منجھی کے خود ہی ذمہ دار ہیں ۔ وہ اردو شاعری کے دائرے کو تنگ کر کے غزل میں محدود کر دیتے تاکہا۔ بے شک غزل ہی اری کا مرکی کی دو ماللہ ہے آپ کی اور میاں پر اللہ کا مالی طرف کان میں ہر دل میں گھر کرتی ہیں ہر زبان کو لذت دیتی ہیں اور ہر محفل کو گرماتی ہیں مقدار کے لحاظ سے بھی شاعری کی ہر صنف سے غزل کا پلہ بھارتی ہے۔ گھر رہا کہاں ملے جو میاں مخالف اسلام کرینگے اور مسلل نظمیں بھی کو کم نہیں ہے۔ بلکہ مجموعی میشے سے نفرتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن کو یہ فکر کا پیدا ہو کہ اردو شاعری پر بحث کرتے وقت ان تمام صنفوں کا خیال دماغ کے کسی گوشے میں بھی موجود نہیں ہوتا اور مرثیوں کا تو گویا اردو شاعری میں شماری نہیں۔“

” حوالہ نمبر ٦ “

 

مسعود حسن رضوی ادیب اردو ادب کے وہ واحد ناقد ہیں جنھوں نے اردو غزل اور شاعری کے حق میں بات کی اور حالی کے جواب میں ایسی تصنیف لکھی جو زندہ و جاوید ہے ۔

 

حوالہ جات :

 

١۔  صفدر، ڈاکٹر آراء، مسعود حسن رضوی ادیب، ماہنامہ کتاب، لکھنؤ، ١٩٦٥ء ص، ١٢٢

 

٢۔  مرزا جعفر حسین، مسعود حسن رضوی، حیات و خدمات، نامی پریس لکھنؤ، ١٩٧٧ء، ص، ١٠٦

 

٣۔  نسیم قریشی، اردو ادب کی تاریخ، کمال پرنٹنگ پریس دہلی، ١٩٥٥ء، ص، ٧٨

 

٤۔  اسماعیل میرٹھی، اخبار سرفراز لکھنؤ، ١٩٢٨ء

 

٥۔  مسعود حسن رضوی ادیب، ہماری شاعری معیار و مسائل، نظامی پریس لکھنؤ، ١٩٧٦ء، ص ١٠١،١٠٢

 

٦۔  ایضاً، ص، ١١٨

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter