حیات وخدمات علامہ محمد عزیز شمس بلکٹوا مدھوبنی بہار رحمہ اللہ
ولادت: 15 دسمبر 1956ء ۔ وفات: 15 اکتوبر 2022ء
==================
عالمی شہرت یافتہ ، بر صغیر کے معروف مصنف ، علم وادب کے روشن چراغ ، جماعت اہل حدیث کے عظیم سپوت ، فخر ابناء جامعہ سلفیہ بنارس ہند،متخصص تراث(امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ) ، و(امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ) ، عالم اسلام کے مشہور رئیس المحققین ، علم کے ایک چلتے پھرتے اسلامک انسائیکلو پیڈیا ، محدث عصر علامہ محمد عزیر شمس بن علامہ شمس الحق سلفی (متوفی : 1986ء) بن علامہ رضاء اللہ بلکٹوی دربھنگوی(متوفی : 1941ء) رحمہ اللہ کا آبائی وطن ضلع مدھوبنی(صوبہ بہار ہندوستان) کے مشہور ومعروف مقام دیودھا بھدور کے قریب ایک گاؤں بلکٹوا ہے اور آپ اس علاقے کے دینی وعلمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اور آپ کی سسرال راقم الحروف کی بستی بیلہا ضلع سرہا نیپال پچھم محلہ میں جناب حاجی محمد اختر حفظہ اللہ کے یہاں ہے جوکہ کہ راقم الحروف کے گھر سے تقریباً ربع کیلو میٹر ہوگا ۔
☆ علامہ رحمہ اللہ کے دادا علامہ رضاء اللہ بلکٹوی دربھنگوی (المتوفی : 1941ء) رحمہ اللہ ضلع مدھوبنی اور دربھنگہ بہار کے مشہور ومعروف علماء کرام میں شمار کیے جاتے تھے اور آپ بڑی شخصیت کے حامل افراد میں سے تھے اور علامہ رحمہ اللہ کے دادا (علامہ رضاء اللہ بلکٹوی دربھنگوی – المتوفی : 1941ء اور علامہ ضمیر الدین دربھنگوی – ولادت : 1885ء المتوفی : 1943ء) جب سن 1916ء میں بیلہا ضلع سرہا نیپال بستی میں دعوت وتبلیغ کی غرض سے اپنے وفد کے ساتھ پہنچتے ہیں تو ایک جھونپڑی نما مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں (جو جناب ٹکھن میاں متوفی 1978 بکرم سمبت ، جناب دل جان میاں – ولادت : 1914 بکرم سمبت متوفی : 2001 بکرم سمبت ، جناب سبجان میاں – ولادت : 28 / 06 / 1916 بکرم سمبت متوفی : 18 / 02 / 2004 بکرم سمبت رحمہم اللہ رحمة واسعة) جنہوں نے اپنی زمین پر ایک جھونپڑی نما مسجد اور مدرسہ کا قیام کیا ہوا تھا جس مسجد اور مدرسہ کا کوئی نام نہیں تھا اور جناب ٹکھن میاں رحمہ اللہ متوفی 1978 بکرم سمبت تدریسی اور دعوتی فریضہ انجام دے رہے تھے سن 1916ء سے قبل بقول علامہ رضاء اللہ بلکٹوی دربھنگوی – المتوفی : 1941ء اور علامہ ضمیر الدین دربھنگوی – ولادت : 1885ء المتوفی : 1943ء اور اسی میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں اس کے بعد شیخین گاؤں کا معائنہ کیا. معائنہ کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ جس مسجد میں میں آپ لوگوں کے ساتھ نماز ادا کیا ہوں وہ گاؤں سے کچھ دور ہے(یعنی یہ جنگل کی طرف ہوجاتا یے اچھا ہوتا کہ اس کو وسط محلہ میں لے جائیں) ابھی جس جگہ راقم الحروف کا گھر ہے وہ زمانہ قدیم میں پورے طور پر جنگل ہی تھا(راقم الحروف کے قدیم گھر سے قدیم جھونپڑی نما مسجد ساٹھ میٹر کے دوری پر واقع تھی اور راقم الحروف کے جدید گھر سے قدیم جھونپڑی نما مسجد تیس میٹر دوری پر واقع ہے) اسی لئے شیخین نے کہا تھا کہ اس مسجد کو وسط محلہ میں لے جایا جائے کیونکہ ادھر مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اور ایسا ہوا کہ آج راقم الحروف کے گاؤں کی جو جامع مسجد ہے بقول علامہ رضاء اللہ بلکٹوی دربھنگوی – المتوفی : 1941ء اور علامہ ضمیر الدین دربھنگوی – ولادت : 1885ء المتوفی : 1943ء (من تلمیذ شیخ الحدیث عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہم اللہ) کی وجہ سے قدیم جگہ سے منتقل کرکے جدید جگہ پر قیام عمل میں آیا اور اسی وقت مدرسہ نجم الہدی السلفیہ اور جامع مسجد بیلہا کا بھی قیام 1337ھ مطابق : 1916ء بکرم سمبت کو 1973 میں عمل آیا اور جناب حاجی دھونسی میاں رحمہ اللہ رحمہ واسعہ مدرسہ اور جامع مسجد کے لئے زمین وقف کیا اور اس کے ساتھ (جناب ٹکھن میاں ، جناب دل جان میاں ، جناب سبجان میاں ، جناب حاجی تیغلی میاں ، جناب پھودار میاں ، جناب سنر میاں رحمہم اللہ رحمہ واسعہ) سبھوں نے اس کار خیر کے کام میں تعاون کیا اور اس وقت دیئے گئے زمین پر مدرسہ مکتب ہی کی شکل میں بنیاد رکھی گئی تھی اور ابھی فی الحال مدرسہ ہذا میں عالمیت تک کی تعلیم دی جاتی ہے جس کا مشاہدہ علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کئ مرتبہ کئے ہوئے تھے ۔ اور راقم الحروف نے تمام معلومات علامہ محمد عزیر شمس بن علامہ شمس الحق سلفی بن علامہ رضاء اللہ بلکٹوی رحمہم اللہ سے بذریعہ موبائل فون اور واٹس ایپ سے گفتگو کرکے جانکاری حاصل کیا ہے اور مزید علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ نے بتایا کہ ہمارے پاس قدیم دستاویزات میں مذکورہ بالا تمام ذکر کرده معلومات ابھی بھی موجود ہے۔
☆ علامہ رحمہ اللہ کے والد محترم علامہ شمس الحق سلفی رحمہ اللہ متوفی : 1986ء اور آپ کے چچا علامہ عین الحق سلفی رحمہ اللہ متوفی : 1982ء اپنے علاقے میں ایک خاص علم وفضل کا مقام رکھتے تھے والد محترم علامہ رضاء اللہ بلکٹوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان دونوں بھائیوں کا (صوبہ بہار ہندوستان اور مشرق نیپال کے علاقوں میں خصوصاً مشرق نیپال کے چار اضلاع : سپتری، سرہا، دھنوشا، مہوتری) دعوتی دورہ بکثرت ہوا کرتا تھا، گاؤں گاؤں اور بستی بستی کا دورہ کرتے تھے، وعظ و نصیحت کرتے تھے، لوگوں کے مابین پائے جانے والے نزاعات واختلافات کا حل فرماتے تھے، مدرسہ قائم کرتے تھے، مسجد بنواتے تھے، امام اور مدرس کا انتظام کرتے تھے ، لوگوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کراتے تھے، لوگوں میں اہل حدیث کی دعوت وتبلیغ فکری بیداری مہیا کرتے تھے، مشرکانہ عقائد ورسومات سے آگاہ کرتے تھے، خصوصاً مشرقی نیپال کے چار اضلاع (سپتری، سرہا، دھنوشا، مہوتری) میں شاید ہی کوئی ایسی بستی ہوگی جہاں مولانا شمس الحق سلفی اور عین الحق سلفی رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ کا دعوتی دورہ نہ ہوا ہوگا ۔
اور جامعہ سلفیہ جنکپور دھام نیپال کا قیام 1966ء میں مولانا ہی کی کوشش کی مرہون منّت ہے کیونکہ مولانا ہندوستان کی طرح نیپال میں بھی ایک مرکزی دارالعلوم کا قیام چاہتے تھے اور اسی لئے جامعہ سلفیہ جنکپور دھام کا قیام عمل میں آیا، تاکہ اس ادارہ کے ذریعہ نیپال میں جماعت اہل حدیث کا دائرہ وسیع ہو، اور دعوت اہل حدیث فروغ پائے، یہاں کے فارغین ملک کے طول وعرض میں پھیلیں اور سلفی دعوت ومنہج کی خوب نشر واشاعت ہو، اور الحمد للہ ہوا بھی ایسا ہی قلیل عرصے میں جامعہ سلفیہ جنکپور دھام کی شہرت و مقبولیت چہار جانب پہنچ گئی، چیدہ چیدہ علماء کرام ومشائخ اس کے مستند تدریس پر فائز تھے جن میں شیخ عبدالرزاق مدنی گنگاپور دھنوشانیپال، شیخ عبدالسمیع مدنی جرہیا دھنوشا نیپال، شیخ محمد عمیر شمس مدنی بلکٹوا بہار ہند، شیخ حبیب الرحمن مدنی ٹہیلہ دھنوشا نیپال، شیخ محمد عیسی کھروکیاہی سرہا نیپال، ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی چمپارن بہار ہند وغیرہم کا ذکر آج بھی جامعہ کے قدیم دستاویزات میں موجود ہے، اور یہاں سے علماء ودعاۃ کی کئ ایک کھیپ بھی تیار ہوئی جو ملک وبیرون ممالک میں دعوت اہل حدیث کے فروغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ خصوصاً مشرق نیپال کے مذکورہ چاروں اضلاع میں جہاں بھی نجم الہدی، شمس الہدی، دارالہدی کے ناموں سے جتنے بھی ادارے قائم ہیں ان تمام کا قیام علامہ شمس الحق سلفی اور علامہ عین الحق سلفی رحمہما اللہ کے ہاتھوں سے ہوا ہے ۔
☆ علامہ رحمہ اللہ کو علم ورثے میں ملا تھا اور علم وایمان کی یہ تمام برکتیں آپ رحمہ اللہ کے گھرانے کو آپ کے نانا مولانا عبدالرحیم بیربھومی (متوفی 1960ء)کی وجہ سے ملی تھیں کیونکہ آپ رحمہ اللہ کے نانا عبدالرحیم بیربھومی رحمہ اللہ رحمة واسعة اپنے دور کے بڑے عالم دین اور بلند مرتبت محدث تھے اور میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد تھے اور اپنی پوری زندگی دعوتی و علمی خدمات انجام دینے میں گزار دیئے۔
اور علامہ رحمہ اللہ اپنے طالب علمی کے زمانہ سے ہی بڑے ذہین اور محنتی طالب علم تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ رحمہ اللہ کو بحث وتحقیق وتعلیق کے ساتھ ساتھ کئ چیزوں کا ملکہ دیا ہوا تھا آپ رحمہ اللہ کے ہم عصر بتاتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ دور طالب علمی سے ہی اردو اور عربی کی بعض کتب طباعت واشاعت ہوکر منظر عام پر آچکی تھی۔
نام ونسب: علامہ محمد عزير شمس سلفى مدنى مكى بن شيخ الحديث علامہ شمس الحق سلفی بن علامہ رضاء اللہ دربھنگوی.
علامہ محمد عزیز شمس رحمہ اللہ کی ولادت:
علامہ رحمہ اللہ رحمہ اللہ کا آبائی وطن ضلع مدھوبنی (صوبہ بہار ہندوستان) کے مشہور ومعروف مقام دیودھا بھدور کے قریب ایک گاؤں بلکٹوا ہے جب کہ آپ کی ولادت صالح ڈانگہ ضلع مرشد آباد (مغربی بنگال ، ہندوستان) 11 جمادی الاولیٰ 1376ھ / 15 دسمبر 1956ء میں ہوئی، لیکن سرکاری کاغذات میں یکم اپریل 1959ء مندرج ہے۔ اور بعض مقالہ نگاروں نے 1957ء بھی ذکر کیا ہے مگر "صاحب البیت ادری بما فیہ” کے مطابق 15 دسمبر 1956ء ہی راجح ہے۔ اور صالح ڈانگہ ضلع مرشد آباد (مغربی بنگال ، ہندوستان) میں علامہ رحمہ اللہ کے والد محترم علامہ شمس الحق سلفی بہ سلسلہ تدریس مقیم تھے ۔ آپ کی ولادت کو چند ماہ ہی ہوا تھا کہ آپ کے والد محترم علامہ شمس الحق سلفی رحمہ اللہ مدرسہ اسلامیہ صالح ڈانگ سے مئی 1957 میں الجامعہ الاسلامیہ فیض عام مئو مشرقی یوپی ہند تشریف لے گئے جہاں پر آپ کے والد محترم علامہ شمس الحق سلفی رحمہ اللہ مئی 1966ء تک مسلسل دس سال تدریسی و دعوتی فرائض انجام دیتے رہے اور آپ اپنے والد علامہ شمس الحق سلفی رحمہ اللہ کے ساتھ وہیں مقیم رہے۔
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کے بھائی اور بہنیں کی تعداد:
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ پانچ بھائی اور سات بہنیں ہیں جن میں سب بڑے پروفیسر زہیر انور شمس رحمہ اللہ فاضل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہند، علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ فاضل مدینہ منورہ یونیورسٹی سعودی عرب، علامہ محمد عمیر شمس مدنی حفظہ اللہ فاضل مدینہ منورہ یونیورسٹی سعودی عرب ، شیخ محمد زبیر شمس مدنی حفظہ اللہ فاضل مدینہ منورہ یونیورسٹی سعودی عرب، شیخ محمد نمیر شمس مدنی حفظہ اللہ فاضل مدینہ منورہ یونیورسٹی سعودی عرب۔
تعداد اولاد علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ:
علامہ رحمہ اللہ کے تین اولاد ہیں جن میں ایک لڑکا اور دو لڑکی ہے آپ رحمہ اللہ فیملی اور بچوں کا آپ نہایت خیال رکھتے تھے, بیٹے کے ساتھ بیٹیوں کو بھی آپ نے نہایت اعلی تعلیم دلائی , آپ کی دو بڑی بچیاں عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔آپ کا یہ ماننا تھا کہ بچیوں کی تعلیم وتربیت کا بھی بیٹوں کی طرح خیال کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلےمیں کسی طرح کی تفریق نہ برتی جائے۔
تعلیمی مراحل علامہ محمد عزیز شمس رحمہ اللہ:
✺ علامہ رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے گھر پر حاصل کیا۔۔ اس کے بعد درجہ پنجم پڑھنے کے بعد مزیدایک سال تک فارسی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ فیض عام مئو میں1962ء سے 1966ء تک حاصل کی کیونکہ آپ رحمہ اللہ کے والد محترم علامہ شمس الحق سلفی رحمہ اللہ مدرسہ اسلامیہ صالح ڈانگ سے مئی 1957 میں مدرسہ فیض عام مئو مشرقی یوپی ہند تشریف لے گئے تھے جہاں پر آپ کے والد محترم علامہ شمس الحق سلفی رحمہ اللہ مئی 1966ء تک مسلسل دس سال تدریسی و دعوتی فرائض انجام دیتے رہے۔
✺ اس کے بعد علامہ رحمہ اللہ اپنے والد رحمہ اللہ کے ساتھ دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار تشریف لے گئے1967ء میں دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں پہلی جماعت میں داخلہ لیا اور وہاں عربی کی تعلیم شروع کی۔
✺ بعدہ علامہ رحمہ اللہ کے والد صاحب دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ بہار سے مستعفی ہوکر 1968ء میں مرشد آباد چلے گئے تو مدرسہ دار الحدیث مرشد آباد میں علامہ رحمہ اللہ دوسری جماعت مکمل کی۔
✺ بعدہ شیخ الحدیث (مولانا عبیداﷲ رحمانی) رحمہ اللہ نے مولانا آزاد رحمانی کے توسط سے علامہ رحمہ اللہ کے والد صاحب کو 1969ء میں جامعہ سلفیہ بنارس بلوایا لیا تو علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں تیسری اور چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
✺ بعدہ 1970ء میں جامعہ سلفیہ بنارس میں داخل ہوئے وہاں سے عالمیت کے چار سال اور فضیلت کے دو سال یعنی 1970ء سے لیکر 1976ء تک تعلیم مکمل کر نے کے بعد 1976ء میں ممتاز نمبرات سے فراغت حاصل کی۔
✺ بعدہ درمیان میں علامہ رحمہ اللہ ایک سال ہندوستان کے مختلف شہروں(دہلی ،لکھنؤ،کلکتہ،پٹنہ وغیرہ) کی سیر اس غرض سے کیا کرتے تھے کہ وہاں کے لائبریریوں اور متعدد علمی شخصیات سے ملاقات اور استفاده کیا جائے اور آپ رحمہ اللہ نے سیر کئے گئے لائبریریوں سے بھرپور طریقوں سے استفاده کیا اور علمی شخصیات سے ملاقات بھی کی اور آپ رحمہ اللہ نے بالخصوص خدا بخش لائبریری پٹنہ بہار ہند میں تو کئی ماہ تک رہ کر یہاں موجود مخطوطات سے فائدہ اٹھانے کےساتھ اسکی فہرست سازی بھی کی بقول شیخ عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی مرکز تاریخ اہل حدیث ہند ۔
✺ فروری 1978ء جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سعودی عرب سے منظوری آئی تو علامہ رحمہ اللہ نے کلیۃ اللغۃ العربیۃ سے لیسانس (بی اے) 1981ء کی ڈگری وہ بھی ممتاز نمبرات مکمّل حاصل کی۔
✺ ماجستیر (ایم فل) کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ دونوں جگہ داخلہ ملا تھا لیکن علامہ رحمہ اللہ نے جامعہ ام القریٰ یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور 1985ء میں ماجستیر کی سند حاصل کی۔ ماجستیر میں مقالے کا موضوع تھا: ”التأثیر العربي في شعر حالي ونقدہ”۔ اس مقالے میں مسدس حالی کا علامہ رحمہ اللہ نے عربی میں ترجمہ بھی کیا تھا ۔
✺ دکتوراہ یعنی (پی ایچ ڈی) کے لئے بھی آپ نے جامعہ ام القری یونیورسٹی میں داخلہ لیا ، موضوعِ تھا ”الشعر العربي في الھند: دراسۃ نقدیۃ”۔ رسالہ تیار تھا مگر 1990ء میں مشرف (سپروائزر) سے کچھ اختلاف ہو گیا، جس کے سبب رسالے کا مناقشہ نہ ہو سکا ۔ اور آپ رحمہ اللہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے محروم رہے ۔ بہرحال آپ کی تعلیم یہیں تک ہے ۔
مشہور ومعروف اساتذہ جامعات ہندوستان:
علامہ شمس الحق سلفی (والد محترم) ، علامہ عین الحق سلفی (عم محترم) ، شیخ حبيب الرحمن الأعظمي ، شیخ محمد مصطفى الأعظمي، شیخ سعيد الأعظمي ، شیخ مقتدى حسن الأزهري ، شیخ نور عظیم ندوی ، شیخ محمد رئیس ندوی ، شیخ محمد ادریس آزاد رحمانی ، شیخ عابد حسن رحمانی ، شیخ عبدالمعید بنارسی ، شیخ عبدالوحید رحمانی ، شیخ عبدالسلام رحمانی ، شیخ عزیز احمد ندوی ، شیخ قرۃ العین اعظمی ، شیخ عبدالسلام طیبی ، شیخ عبدالسلام بن ابی اسلم مدنی ، شیخ عبدالرحمن ڈوکمی ، شیخ صفی الرحمن مبارک پوری ، شیخ انیس الرحمن اعظمی ، شیخ عبدالحنان فیضی بستوی ، شیخ ہادی الطالبی۔ یہ ایک عرب استاد تھے جو جامعہ سلفیہ(بنارس) میں مدرس تھے ، جناب ماسٹر منظور احمد ، جناب ماسٹر آفتاب ، جناب ماسٹر شمس الدین۔
مشہور اساتذہ جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) سعودی عرب:
ڈاکٹر عبدالعظیم علی الشناوی ، شیخ عز الدین علی السید ، شیخ احمد السید غالی ، شیخ محمد قناوی عبدﷲ ،شیخ محفوظ ابراہیم فرج ، شیخ عبدالعزیز محمد فاخر، شیخ ابراہیم محمد عبدالحمید ابو سکین ، شیخ محمد احمد العزب ، شیخ احمد جمال العمری ، شیخ صالح احمد بیلو ، شیخ طہٰ ابو کریشہ ، شیخ محمد بیلو احمد ابوبکر شیخ عباس محجوب ، شیخ عبدالباسط بدر ، شیخ علی ناصر فقیہی ، شیخ جبران۔
مشہور اساتذہ جامعہ ام القریٰ (مکہ مکرمہ) سعودی عرب:
ڈاکٹر حسن محمد باجودہ ، شیخ محمود حسن زینی ، شیخ عبدالحکیم حسان ، ڈاکٹر احمد مکی الانصاری ، شیخ علی محمد العماری ، عبدالعزیز الکفراوی ، شیخ لطفی عبدالبدیع ، شیخ عبدالسلام فہمی، شیخ نعمان امین طہٰ ، شیخ عبدالعزیز کشک۔
علامہ عزیر شمس کی زندگی میں حوصلوں کا سبق:
شیخ ابو ھلال عبدالمجید بھکراہوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” علامہ عزیر شمس کی زندگی میں ہر قدم پر حوصلوں کی بہتات ہے ۔ آپ عالم اسلام اور مرکز اسلام میں چوٹی علماء کا کردار رکھنے کے باوجود زندگی میں جو خاطرخواہ پذیرائی ملنی چاہئے اگرچہ وہ نہ ملی’ تاہم وہ خود بھی ایسی مروجہ سطحی کوششوں سے بہت دور تھے جس میں بعض معاصر علماء اپنی شہرت کی طلب میں کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس آپ ان جگہوں پر ضرور جاتے ہیں اور سفر کی صعوبتیں ضرور جھیلتے مگر منفرد انداز میں’ مخطوطات کی تلاش میں اور علمی پیاس کو بجھانے میں ۔
اسی طرح آپ نے ذاتی ادارے’ بڑی بڑی جائدادیں اور نمود و نمائش کے بڑے بڑے ڈھکوسلے اختیار نہیں کیے تھے ۔۔۔۔۔ پس وہ سبھی لوگ جو گمنام ہیں’ نیکیوں اور خوبیوں کو چھپانے والے ہیں جس قدر آج خوش ہیں وہ حقیقی شادمانی دوسروں کے حصے میں نہیں ہے ۔ اگرچہ نعرہ لگانے والی بھیڑ میں گونگے بھی کریڈٹ لے جاتے ہیں’ کہ اس نے بھی نعرہ لگایا تھا ۔۔۔۔ اسی طرح آپ کی سادگی ، متانت ، تواضع اور بےنفسی سے وہ لوگ بھی حوصلہ پاتے ہیں جو بہت کچھ انواع و اقسام سے محروم ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی غریب الوطنی میں جینے والے اور عیالداری کے بوجھ تلے کراہنے والے بھی آپ کی شخصیت میں اپنا مواد پاتے ہیں ۔ گو آپ کسی چیز کے محتاج ہرگز نہ تھے مگر اپنے سے کمتر لوگوں میں زندگی کی راہ دکھانے اور زندہ دلی سکھانے کے لئے آپ کا یہ اندازِ تواضع بڑا ہی دل ربا تھا "۔
رفقاء درس علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ:
شیخ عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی حفظہ اللہ مرکز تاریخ اہل حدیث ہند فرماتے ہیں کہ : علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کے ہم سبق ساتھی شیخ عبدالحکیم دین محمد سلفی گھاٹ کوپر ممبئی ہند اس بابت اپنے ایک واٹسیپ میسیج میں رقمطراز ہیں کہ: علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ بنارس کے درجہ فضیلت میں میرے ہم سبق اور کلاس فیلو تھے اور 1976ء میں ہم مندرج ذیل ساتھیوں نے جامعہ سلفیہ بنارس سے سند فضیلت حاصل کیا ۔
❶ علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ ❷ شیخ صلاح الدین مقبول مدنی❸ ڈاکٹر عبدالقیوم محمد شفیع مدنی ❹ ڈاکٹر بدرالزماں مدنی نیپالی ❺ شیخ عبداللہ سعود ناظم جامعہ سلفیہ بنارس ❻ شیخ شھاب اللہ مدنی دبئی❼ شیخ عبدالقدوس مدنی استاذ جامعہ محمدیہ مالیگاؤں ❽ شیخ ابو طلحہ مرغہوا ❾ شیخ عبدالمعید سکرا بشنپور ⓿❶ عبدالمجید مدنی اکرہرا رحمہ اللہ ❶❶ احقر عبدالحکیم دین محمد السلفی مدیر مسجد المرکز الاسلامی وکلیہ فاطمہ الزھراء الاسلامیہ للبنات نارئن نگر گھاٹ کوپر ممبئ ❷❶ ڈاکٹر رضاءاللہ محمد ادریس رحمہ اللہ مبارکپوری جو سند فضیلت حاصل کرنے سے پیشتر ذاتی کوشش سے سند عالمیت سے مدینہ یونیورسٹی پہونچ گئے ❸❶ شیخ عبدالجلیل مکی جو سند فضیلت نہیں حاصل کرسکے _ اس طرح من جملہ 13 ساتھی ھوتے ہیں ۔
ان ساتھیوں میں سے علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کو لیکر تین ساتھی ( شیخ عبدالمجید مدنی، ڈاکٹر رضاءاللہ مدنی ، علامہ محمد عزیر شمس رحمہم اللہ ) دنیا چھوڑ چکے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور بقیہ دس ساتھی بقید حیات ہیں اور اپنے اپنے فیلڈ میں سرگرم عمل ہیں اللہ تعالی انھیں عمر خضر عطا فرمائے اور بسلامت حیات بخشے ۔ آمین.
خدمات علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ:
حافظ شاہد رفیق پاکستان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” مکہ اور مدینہ کے دورانِ قیام میں شیخ عزیر شمس نے مختلف ممالک کا علمی و مطالعاتی سفر بھی کیا جہاں ان ملکوں کی لائبریریوں، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو دیکھا اور نامور اہلِ علم اور محققین و مصنّفین سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملکوں میں پاکستان، مصر، اردن، شام، ترکی، فرانس، برطانیہ، مراکش، ترکمانستان، کویت، بحرین اور امارات شامل ہیں۔ نیز ان میں سے کئی ممالک کی مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالات پیش کیے اور مختلف موضوعات پر لیکچر بھی دیے "۔
شیخ عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی حفظہ اللہ مرکز تاریخ اہل حدیث ہند – علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کے متعلق پانچ خدمات ذکر کرتے ہیں کہ :
❀ جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعدآپ نے ڈیڑھ سالوں تک ہندوستان کی مختلف لائبریریوں کی خاک نوردی کی ،اس دوران آپ خدا بخش لائبریری پٹنہ بھی گئے اور وہاں چار مہینے تک رہ کروہاں پائی جانے والی مخطوطات کی فھرست سازی کی۔
❀ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران آپ نے جامعہ کی لائبریری کے قسم المخطوطات میں تین سالوں تک اسکی ترتیب اور فہرست سازی وغیرہ کا کام کیا۔اسی دوران آپکی ملاقات شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے ہوئی جو مکتبہ مرکزیہ میں بار بار تشریف لاتے اور طلباء آپ سے ملاقات کے لئے یہاں پر ہجوم کرتے۔
❀ اسی طرح آپ نے امالقری یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری اور حرم مکی کی لائبریری میں پائی جانے والی مخطوطات کی ترتیب اور فھرست سازی کا بھی کام برسوں تک انجام دیا ہے۔
❀ ام القری یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وطن واپس آگئے اور پھر کچھ دنوں بعد ہی رب کریم نے مکہ لوٹنے کی سبیل فراھمکردی چنانچہ آپ باضابطہ مکہ میں اقامت گزیں ہوگئے ،اور اس طرح کبھی مجمع ملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف (مدینہ منورہ) سے منسلک رہے تو کبھی جامعہ امالقری سے تو کبھی اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ سے ۔مگر کام وہی علمی ،تحقیقی اور تصنیفی قبیل کا ہی رہا ،اس فترے میں مدینہ یونیورسٹی کے تعلیمی ایام میں میرا بارہا عمرے کی غرض سے مکہ مکرمہ جانا ہوا وہیں باب بلال پر ملاقات ہوتی اور آپ سے کچھ سیکھنے سننے کا موقع مل جاتا۔بالخصوص مارکیٹ میں چھپ کر آنے والی نئی نئی کتابوں اور انکے تحقیق شدہ ایڈیشناور طبعات کے سلسلے میں جدید معلومات حاصل ہوتیں جو شیخ عزیر رحمہ اللہ کا پسندیدہ فن تھا۔
❀ اپنے تحقیقی اور تصنیفی ذوق کے مطابق باضابطہ 1999ءمیںمکہ کے ایک نشریاتی ادارے” دار عالمالفوائد”سے وابستہ ہوگئے اور پھر پورے منصوبہ بندی کے ساتھ علم وتحقیق کے میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے، برصغیر میں علمائے اہل حدیث کی خدمات کی ترتیب اورانکی کتابوںکی تدوین واشاعت کے ساتھ علامہ ابن تیمیہ اور انکے شاگرد علامہ ابنالقیمکی کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا،اور تادم آخریں اسکی تدوین وترتیب ،تخریج وتعلیق کے علمی کام سے ایسےجڑے کہ آج ایک قیمتی سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں ۔چونکہ مخطوطاتکی تدقیق ،مقارنہ،خط شناسی وقراءت میں آپ کو ید طولی حاصل تھا اس لئے اس میں آپ کو پوری طرح سے کامیابی ملی۔اور دنیائے علم وتحقیق نے آپ کی علمی کاموں پر اعتمادکے ساتھ خوب خوب دادو تحسین کےپھول نچھاور کئے۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
❀ جامعہ سلفیہ جنکپور دھام دھنوشا نیپال کی سند عالمیت کا معادلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سعودی عرب سے علامہ محمد عزیر شمس ہی کا مرہون منت ہے اور اس شہادہ سے جتنے بھی فارغین مدینہ منورہ یونیورسٹی گئے ہیں اور وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر آگئے ہیں وہ ان شاء اللہ علامہ رحمہ اللہ کے لئے صدقہ جاریہ ہوں گے-
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کی کچھ اہم خوبیاں:
شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی حفظہ اللہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند فرماتے ہیں کہ : شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔صاف دل ،صاف گو،علماء وطلبہ نواز ،نہایت خلیق وملنسار،نیک وپاکباز اورسادگی پسند ومتواضع انسان تھے ۔
شیخ خورشید احمد سلفی شیخ الحدیث جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال فرماتے ہیں کہ : علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ اپنی ذہانت خداداد صلاحیتوں اور اپنی علمی، تحقیقی ، تصنیفی خدمات کی بناء پر عالم اسلام کے چوٹی کے ایک بڑے معتبر و مستند باحث و محقق تھے۔ ان کا ذہن بڑا ہی تیز اور عقابی تھا۔ انہوں نے مخطوطات و تحقیقات کے ذریعے علوم، رجال، شخصیات کی ایسی ایسی پرتیں کھولیں کہ اہل علم عش عش کرنے لگے ۔
جب ہم لوگ جامعہ سلفیہ بنارس میں کسب فیض کر رہے تھے ۔وہ مجھ سے صرف ایک سال آگے تھے اس لیے کوئی فاصلہ اور دوری نہیں تھی بنا بریں ان کی گفتگو سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔وہ اکثر اپنے کلاس کے ساتھیوں سے علمی موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے اور اکابر علماء مثلاً علامہ محمد ناصرالدین البانی وغیرہ کی تحقیقات و خیالات پیش کرتے رہتے تھے۔ انہیں کے ذریعے متعدد علماء عصر کے ناموں و کارناموں سے میرے کان آشنا ہوئے۔ ان کے اندر جو سادگی، بےتکلفی، اپنائیت، محبت، شفقت، علمی ذوق اور ذہنی بےفکری تھی وہ آخر تک قائم رہی۔ اور تعلی،تکبر، تکلف،تصنع،بناوٹ سے بالکل پاک رہے۔
ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی فرماتے ہیں کہ : ” شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ جہاں علم وفن کے نیر تاباں اور تحقیق ورسرچ کے منارہ نور تھے وہیں اللہ تعالی نے آپ میں دوسری گوناگوں خوبیاں بھی رکھی تھیں, آپ نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے, علماء وطلباء کا خصوصی خیال رکھتے تھے, انہیں مخلصانہ رہنمائی کرتے تھے, انہیں مطالعہ وتحقیق کی رغبت دلاتے اور اس سلسلے میں خصوصی مشورے دیتےتھے۔یہی وجہ ہےکہ جو بھی آپ سے ملتا ایک ہی ملاقات میں آپ کا لدادہ ہوجاتا اور آپ کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔
علماء وطلباء اور باحثین ومحققین سے جب بھی آپ کی ملاقات ہوتی, فورا علمی گفتگو شروع ہوجاتی , سامنے والے کےذوق اور معیار کے مطابق آپ قیمتی گفتگو سے اسے مطالعہ وتحقیق کے میدان میں نئی سمت دیتے تھے۔
ہندوپاک کے طلباء واسکالرس بطور خاص آپ سے ملنے اور استفادہ کرنے جایا کرتے تھے, آپ انہیں کبھی ناامید نہیں کرتے تھے, انہیں وقت دیتے اور انہیں نصیحت فرماتے تھے,آپ کا یہ سلسلہ آپ کی موت تک جاری رہا "۔
شیخ عبدالحيّ محمد حنيف مدنى حفظہ اللہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال فرماتے ہیں کہ : ” میں نے علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کے ساتھ تین سالہ دور رفاقت گزارا ہے دوسال جامعہ سلفیہ بنارس میں اور ایک سال مکہ مکرمہ میں جب وہ ام القری میں تھے اور میں ام القری سے قریب ہی عزیزیہ میں معہد تدریب الائمة والدعاة میں طالب تھا جہاں شیخ رحمہ اللہ برابر آتے تھے اور ھم لوگ بھی انکے پاس استفادہ اور اپنے مقالہ کی تیاری میں رھنمائی کی غرض سے جاتے رہتےتھے ۔ آپ رحمہ اللہ اپنے سے چھوٹوں پر شفقت اور انکی علمی رہنمائی فرماتے تھے ۔۔اور سادگی ، تواضع ، قوت حافظہ و کثرت مطالعہ میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے ۔ علامہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور انکے شاگرد رشید علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہما اللہ رحمة واسعة کی تحریروں کے دلدادہ اور انکے رمز شناس تھے "۔
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کے متعلق بعض احساسات:
مولانا ابوعفاف عبدالوحید حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” وہ محض محقق ہی نہیں بلکہ مورخ ادیب فقیہ لغوی اور تاریخ اہل حدیث کے انسائیکلوپیڈیا تھے. امت کے ماضی حال پر گہری نظر تھی اور مستقبل شناس تھے, سیاست اور حالات حاضرہ سے بھر پور واقفیت تھی, انکے علمی سفر و سیاحت کی طویل داستان ہے, عربی شعر و نقد پر سند کی حیثیت رکھتے ہیں, ان کے ماجستیر اور پی ایچ ڈی کے رسالے اس کے گواہ ہیں. اردو زبان و ادب اور ادباء پر جب بات کرتے تو علم کے موتی بہاتے تھے. اسلامی تاریخ, فکر اور فلسفہ پر بات کرتے تو سامع ان کی علمی گہرائی اور نکتہ سنجی کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا. عام طور سے لوگ انہیں ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کے تراث کے ماہر و محقق کی حیثیت سے جانتے ہیں. مگر حقیقت میں وہ بیک وقت محقق, مورخ فقیہ ادیب مفکر سب کچھ تھے. انگلش زبان کی بھی اچھی جانکاری تھی اور شاید جرمن زبان بھی جانتے تھے اور اردو عربی فارسی کی وہ چلتی پھرتی زبان تھے "۔
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کی سادگی زندگی:
جب علامہ رحمہ اللہ اپنے سسرال راقم الحروف کے بستی بیلہا ضلع سرہا نیپال میں آتے تو ان کے کپڑوں میں بہت ہی زیادہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے لوگ پہنچان بھی نہیں پاتے کہ یہی علامہ محمد عزیر شمس ہے اور شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ کی سادگی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ مکہ مکرمہ میں ان کے ایک پڑوسی عبدالرحمٰن نامی شخص بیان کرتے ہیں کہ : میں شیخ کا پڑوسی تھا۔ میرے اور ان کے گھرکے درمیان صرف دو بلڈنگ کا فاصلہ تھا۔ میں ہر روز انہیں نماز فجر میں دیکھتا تھا۔ ان کی حد درجہ سادگی دیکھ کر میں سمجھتا تھا کہ یہ کوئی مزدور شخص ہوگا۔ انتقال کے بعد جب لوگ تعزیت کے لیے آنے لگے تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک بڑے عالم دین تھے۔ گزشتہ بدھ(12 اکتوبر 2022) کو نماز فجر میں وہ مجھ سے سلام بھی کئے تھے اور وہ آج اپنے رب کے پاس پہنچ گئے ہیں۔
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ اسلامک انسائیکلوپیڈیا تھے:
شیخ محمد اشفاق سلفی مدنی حفظہ اللہ استاذ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ(بھار) ہند فرماتے ہیں کہ : ” شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ بڑے ذھین اور محنتی انسان تھے انہوں نے منجانب اللہ عطا کردہ صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ لوگوں کا حسن ظن ہے کہ وہ چلتی پھرتی اسلامی لائبریری اور معلومات کا گراں مایہ خزانہ تھے اور بایں ہمہ انتہائی متواضع، ملنسار اور طالبان علم کے لئے کشادہ دل اور ناصح تھے جو کہ علماء سلف اور ان کے نہج پر قائم لوگوں کی صفات ہیں "۔
شیخ حبیب الرحمن سلیمان مدنی حفظہ اللہ رئیس مرکز الدعوہ الاسلامیہ والتعلیم مرچیا سرہا نیپال فرماتے ہیں کہ : علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ چلتے پھرتے اسلامک لائبریری ، عرب وعجم کے محقق عصر، محدث عصر، بحث وتحقیق اور علمی وتصنیفی کاموں کے شوقین تھے اس لئے تدریس ودعوت کے میدان کے بجائے آپ نے اسے ہی چنا اور پھر اپنے اشھب قلم سے فن کی وہ جولانیاں پیش کیں کہ دنیائے تحقیق آپ کی۔متلاشی بن گئی ،اور اس طرح اپنے تحقیقی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے آپ نے مکہ ہی کی سرزمین کو مسکن بنالیا اور پھر یھیں سے رفتہ رفتہ افق تحقیق پرچھاتے چلے گئے یوں تو آپ شیخ الاسلامابن تیمیہ رحمہ اللہ کے علوم ومعارف کے شناور ،انکی تصنیفات ومخطوطات کے شیدائی اور عظیم محقق،دقیق اور گنجلک مخطوطات اور اسکے رسمالخط کے واقف ،تاریخ اہل حدیث ومحدثین کے حافظ وماہر ہونے کے ساتھ متعدد زبانوں کے بھی جانکار تھے ۔
اور آپ رحمہ اللہ نہایت ہی نیک، خلیق، ملنسار، منکسر المزاج، حق گو، اور فرشتہ صفت انسان تھے ہمیشہ لوگوں کو مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے لغویات سے ہٹ کر اپنے کام سے مطلب رکھتے، اور اسلامی ماحول کو پسند فرماتے تھے۔دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، ان کا دل ہمیشہ توحید وسنت سے سرشار تھا۔
آپ رحمہ اللہ ہمارے گھر پر دس سے زائد مرتبہ تشریف لا چکے ہیں اور انہوں نے ہمارے مرکز کے لئے توصیہ بھی لکھا ہے، اور جب بھی تشریف لاتے نہایتی خوش مزاجی کے ساتھ ملتے اور فرماتے کہ شیخ حبیب الرحمن آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی ۔ واقعی آپ بڑے خلیق وملنسار، خوش وخرم چہرہ، اکرام ضیافت ،عالم وعلماء کے قدرداں ہیں اور اللہ نے آپ کو بے شمار خوبیوں اور صفتوں سے نوازا ہے۔
شیخ اشفاق سجاد سلفی حفظہ اللہ نائب رئیس جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ جھاڑکھنڈ بہار فرماتے ہیں کہ : ” شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کے کام اتنے ہیں کہ سیکڑوں پر فائق، آپ موسوعہ اور انسائیکلوپیڈیا آف علوم تھے، بچپن سے آپ کی ذہانت وعلم کے چرچے سنتا تھا اور اتنا علم، اتنا فضل، اتنی شہرت، اتنی عزت اور بہت کچھ ہونے کے باوجود کبھی متکبرانہ شکل وصورت میں نظر نہیں آئے "۔
راقم الحروف (محمد مصطفى كعبى ازہریؔ فاضل الازہر اسلامک یونیورسٹی مصر عربیہ) کا اپنا خیال ہے کہ : ” علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ وقت کے بڑے محقق عصر ، عالمی شہرت یافتہ ،بر صغیر کے معروف مصنف ، علم وادب کے روشن چراغ ، تفقہ فی الدین میں ایک انتہائی ممتاز ونمایاں حیثیت کے مالک ۔ عربی، فارسی ، اور علوم دینیہ کے شناور ، ماہرین فن رجال، تحقیق و تعلیق اور تخریج میں آپ رحمہ اللہ اسلامی مکتبہ کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ آپ رحمہ اللہ نے اپنی پوری زندگی پڑھنے اور لکھنے میں گذار دی اور آپ رحمہ اللہ نے کبھی بھی اپنے لباس اور وضع قطع پر نظر نہیں ڈالا۔ کیونکہ آپ رحمہ اللہ کو پڑھنے پڑھانے اور لکھنے سے فرصت ہی نہیں ملی ۔
تحقیقات وتصنیفات علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کی فہرست:
1۔ رفع الالتباس عن بعض الناس، للعلامۃ شمس الحق العظیم آبادي۔
تحقیق۔۔۔بنارس ١٩٧٦م
2۔ حیاۃ المحدث شمس الحق وأعمالہ۔
تالیف۔۔۔۔بنارس ١٩٧٩ م
3۔ رد الإشراک، للشاہ إسماعیل بن عبد الغني الدھلوي۔
تحقیق۔۔۔لاہور ١٩٨٣ م
4۔ مولانا شمس الحق عظیم آبادی۔ حیات اور خدمات۔
تالیف۔۔۔۔۔کراچی ١٩٨٤ م
5۔ تاریخ وفاۃ الشیوخ، لأبي القاسم البغوي
تحقیق۔۔۔۔۔ممبئی ١٩٨٨ م
6۔ فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی
تحقیق۔۔۔۔۔کراچی ١٩٨٩ م
7۔ روائع التراث۔۔۔۔۔[مجموعۃ عشر رسائل نادرۃ]
تحقیق۔۔۔۔ممبئی ١٩٩١ م
8۔ غایۃ المقصود شرح سنن أبي داود، للعظیم آبادی [١۔٣]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔کراچی ١٩٩٣ م
9۔ بحوث و تحقیقات للعلامۃ عبد العزیز المیمني [١۔٢]
تحقیق۔۔۔۔بیروت ١٩٩٥ م
10۔ استدراک أم المؤمنین عائشۃ علی الصحابۃ، لأبي منصور البغدادي
تحقیق۔۔۔۔۔ممبئی ١٩٩٦ م
11۔ قاعدۃ في الاستحسان، لابن تیمیۃ بخطہ
تحقیق۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ١٩٩٩ م
12۔ الجامع لسیرۃ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ
بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ١٩٩٩ م
13۔ تقیید المہمل وتمییز المشکل، لأبي علي الجیاني [١۔٣]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٠ م
14۔ جامع المسائل لابن تیمیۃ [١۔٧]
تحقیق۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٢ م
15۔ إتحاف النبیہ بما یحتاج إلیہ المحدث والفقیہ، للشاہ ولي اﷲ الدھلوي۔۔۔۔۔تعریب۔۔۔۔۔لاہور ٢٠٠٣ م
16۔ الرسالۃ التبوکیۃ لابن القیم۔۔۔تحقیق۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٣ م
17۔ تنبیہ الرجل العاقل، لابن تیمیۃ۔۔۔تحقیق بالاشتراک
مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٥ م
18۔ جواب الاعتراضات المصریۃ علی الفُتیا الحمویۃ، لابن تیمیۃ
تحقیق۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٩ م
19۔ الفوائد، لابن القیم۔۔۔تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٩ م
20۔ روضۃ المحبین، لابن القیم۔۔۔۔۔تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١١ م
21۔ إغاثۃ اللہفان في مصاید الشیطان، لابن القیم [١۔٢]
تحقیق۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٢ م
22۔ الکلام علی مسألۃ السماع، لابن القیم
تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٢ م
23۔ مجموع رسائل الفقہ، لعبد الرحمن المعلمي [١۔٣]
تحقیق۔۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م
24۔ مجموع رسائل أصول الفقہ، للمعلمي۔۔۔[٥ رسائل]
تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م
25۔ التنکیل بما في تأنیب الکوثري من الأباطیل، للمعلمي [١۔٢]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م
26۔ تحقیق الکلام في المسائل الثلاث، للمعلمي
تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م
27۔ معجم الشواھد الشعریۃ، للمعلمي
تحقیق۔۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م
28۔ شرح العمدۃ، لابن تیمیۃ [١۔٥]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٦ م
29۔ أعلام الموقعین عن رب العالمین لابن القیم [١۔٦]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٧ م
30۔ زاد المعاد في ھدي خیر العباد لابن القیم [١۔٧]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٨ م
31۔ شرح حدیث إنما الأعمال بالنیات، لابن تیمیۃ بخطہ
تحقیق۔۔۔۔۔الکویت ٢٠١٨ م
32۔ مدارج السالکین في منازل السائرین، لابن القیم [١۔٤]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م
33۔ أحکام أھل الذمۃ، لابن القیم [١۔٢]
تحقیق بالاشتراک۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م
34۔ مؤلفات الإمام ابن القیم: نسخھا الخطیۃ وطبعاتھا
تالیف۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م
35۔ الفہارس العلمیۃ لآثار الإمام ابن قیم الجوزیۃ [١۔٢]
تالیف۔۔۔۔بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م
36۔ مقالات محمد عزیر شمس [ اردو ]
تالیف۔۔۔۔۔گوجرانوالہ ٢٠٢٠ م
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کے مضامین کی عربی، اردو مختلف رسائل وجرائد میں مقبولیت:
حافظ شاہد رفیق پاکستانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ” آپ نے اردو و عربی زبان میں مختلف موضوعات پر متعدد مضامین بھی تحریر کیے ہیں جو عربی واردو رسائل و جرائدمیں اپنے اپنے وقت پر شائع ہویے تھے اور کافی پسند کئے گئے تھےان میں ”مجلۃ الجامعۃ السلفیۃ” (بنارس)، ”مجلۃ المجمع العلمي الہندي” (علی گڑھ)، ”مجلۃ مجمع اللغۃ العربیۃ” (دمشق)، ”معارف” (اعظم گڑھ)، ”برہان” (دہلی)، ”جامعہ” (دہلی)، ”تحقیقات اسلامی” (علی گڑھ)، ”ترجمان” (دہلی) اور ”محدث” (بنارس) وغیرہ سرفھرست ہیں ۔
مذکورہ بالا تصنیفات و تحقیقات کے علاوہ بھی آپ نے متعدد رسائل کی تحقیق و تدوین کر رکھی ہے اور مختلف موضوعات پر عربی اردو زبان میں لکھا ہے جو ابھی تک غیر مطبوع ہے۔ امید کہ یہ سب جلد ہی منظر عام پرآجائیں گی – ان شاءاللہ "۔
علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کے آخری ایام کی مصروفیات:
شیخ عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی حفظہ اللہ مرکز تاریخ اہل حدیث ہند فرماتے ہیں کہ : عمر کے آخری پڑاؤ میں اپنے منصوبے کے مطابق شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کے علاوہ بعض اہم علمی کاموں پر بھی آپ کی نگاہ تھی ،جسے پایہ تکمیل تک پھونچانے کے لئے آپ کوشاں تھے ،اللہ کرے یہ سارے کام اور کتابیں جلد منصہ شہود پر آجائیں اورہم قارئین اس سے مستفید ہوسکیں ۔ذیل میں تفصیل پیش خدمت ہے۔
1۔ معیار الحق للشیخ نذیر حسین الدھلوی۔۔۔تعریب وتحقیق
2۔ مجموعہ رسائل علامہ محمد حیات سندھی۔۔۔جمع وتحقیق
3۔ مجموعہ رسائل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔ جمع وتحقیق
4۔ مجموعہ رسائل علامہ شمس الحق عظیم آبادی۔ جمع وتحقیق
5۔ کتاب المواعظ لابی عبید۔ تحقیق
6۔ فتاوی ورسائل علامہ حسین بن محسن الانصاری الیمانی
7۔ رسائل وفتاوی میاں نذیر حسین محدث دہلوی۔
8-الصارمالمسلول علی شاتم الرسول ابن تیمیہ تحقیق باالاشتراک
9-مقالات وبحوث استاذ محمد حمیداللہ ۔
10-خطبات مولانا شمس الحق عظیمآبادی (جمع وترتیب)وغيره وغيره کتابیں ہیں ۔
وفات علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ:
علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ متعدد کتب پر تحقیقی وتعلیقی کا کام انجام دے ہی رہے تھے جو کہ ناقص ہی ہے اور اس کو مکمّل بھی نہیں کرسکے کہ آپ رحمہ اللہ کو ایسی کوئی خاص بیماری یا تکلیف لاحق نھیں تھی لیکن موت ایک حقیقت ہے ، آپ رحمہ اللہ نے اپنی پوری زندگی طلباء وعلماء کے ساتھ گھر کی مجلس میں 65 سال سے زائد گزار دیئے اور عشاء کی اذان کے وقت 18ربیع الاول 1444ھ مطابق : 15 اکتوبر 2022ء بروز سنییچر مکہ مکرمہ سعودی عرب میں مالک حقیقی سے جاملے۔ اور آپ رحمہ اللہ کی نماز جنازہ حرم مکی میں فجر کی نماز کے بعد سوموار کے دن ادا کی گی، اور تدفین قبرستان معلاۃ میں ہوئی جہاں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی قبر ہے۔
انا لله وانا اليه راجعون
اللهم اغفر له وارحمه و ادخله الجنة والهم اهله و ذويه الصبروالسلوان آمين يارب العالمين
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی شیخ کی لغزشوں کو درگزر فرمائے، آپ کی مغفرت فرمائے، اور آپ کی قبر کونور سے بھردےاور اسے جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنادے، اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے ، اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا کرے ۔ آمین
مراجع ومصادر :
✺ ترجمة الشيخ المحقق محمد عزير شمس بن شمس الحق بن رضاء الله(عربی) إعداد مركز سلف للبحوث والدراسات
✺ ویکیپڈیا عربی ، اردو بابت شیخ عزیررحمہ اللہ
✺ ریکارڈ مرکز تاریخ اہل حدیث وذاتی ملاقات ومعلومات
✺ ترجمة موجزة للشيخ عزيرازد.عاصم القريوتى
✺ قافلہ حدیث از اسحاق بھٹی رحمہ اللہ
✺ مقالات شیخ عزیر شمس ازحافظ شاہد رفیق پاکستانی
✺ بحث وتحقیق اور معارف ابن تیمیہ کےماہر شیخ محمد عزیر شمس سلفی مدنی
آپ کی راۓ