دعوتی ترجیحات اور دعاۃ کے صفات

تلخیص: قمر الدین ریاضی استاذ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال

29 ستمبر, 2022

تحریر: الشيخ سعد بن شایم بن محمد العنزی /حفظہ اللہ ورعاہ

یقینا دعوت الی اللہ ایک پاکیزہ عمل ہے، نصوص شرعی میں اس کے حوالہ سے بہت ساری فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ارشاد باری تعالی ہے:(ومن أحسن قولا ممن دعا الی اللہ وقال اننی من المسلمین)ترجمہ: اس شخص بہتر بھلا کس کی بات ہوسکتی جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور کہے میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

اس دعوتی مشن کو انجام دینے کے لئےضروری ہے کہ اس میں نبی کریمﷺ کے طریقے کو اساس بنایا جائے، قلت و کثرت حق کا پیمانہ نہیں ہے بلکہ رسول اللہﷺکے طریقہ کی پیروی نیز خلفائے راشدین کے چھوڑے ہوئے نقوش کی اتباع دعوت کا سب سے ترجیحی پہلو ہے۔

اللہ کے رسولﷺ نے اپنی پاکیزہ سنت اور صحابہ کرام کے نقوش کو مختلف ناموں کے ساتھ ذکرکئے ہیں، کہیں اسکو سنت سے تعبیر کیاگیا تو کہیں جماعت کے نام سے موسوم کیا گیا، توکہیں سواد اعظم کا لقب دیا گیا، تو کہیں صراط مستقیم و الدین القیم جسے الفاظ سے تعبیر کیاگیا، ان مختلف اسالیب سے تعبیر کرنے کا بنیادی ہدف یہی رہا کہ دعوتی مشن کو نبی کریمﷺاور صحابہ کرام وسلف صالحین کے طریقے پر انجام دیا جائے۔

اسی طرح سے دعوتی ترجیحات میں سے ہے کہ ہماری دعوت تمام قسم کی عصبیت سے خالی ہو،حزبیات یا شخصیات کی دعوت قعطا نہ دی جائے، بلکہ ہماری دعوت اتباع کتاب وسنت کے لئے ہو، اوراس عمل کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو۔پس جو دعوت حزبیات یا شخصیات کی دعوت ہووہ شرعی دعوت ہو ہی نہیں سکتی، اور نہ ہی اس کی نشرواشاعت کرنے والادعوت کے فضائل وبرکات سے محجوز ہونے کا حقدار ہی نہیں ہو سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اخلاص اور صدق عمل کے درمیان تفریق کی جاتی ہے،، صدق عمل محنت اور کد وکاوش کا نام ہے جو اخلاص سے عاری ہو سکتی ہے۔

داعی کے اہم صفات:

اخلاص: ایک داعی کے لئے ضروری ہے کہ اتباع کتاب وسنت کے ساتھ اپنے اس انبیائی مشن میں مخلص ہو، اس کی دعوت کامقصد صرف اللہ رب العالمین کی رضامندی وخوشنودی حاصل کرنا مقصود ہو۔

اتباع کتاب وسنت: مبلغ وداعی کو چاہئے کہ وہ اپنی دعوت وتبلیغ ومیں نبی کریم ﷺ کو اسوہ وآڈیل بنائے رکھے، نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام نے جس طرح سے اس دعوتی مشن کو انجام دئے ہیں بعینہ انہیں کے نقش قدم چلتے ہوئے اس عمل کو انجام دے۔ارشاد ربانی ہے(ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ونصلہ جہنم وساء ت مصیرا)ترجمه: جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔

علم وبصیرت: دعوت الی اللہ کے لئے لازم وضرور ی ہیکہ اس کی دعوت علم شرعی وبصیرت سے مزین ومسلح ہو، بلا علم کے دعوت وتبلیغ کرنا شریعت کی نظر میں مجرم قرار دیاجائے ارشادباری تعالی ہے:(قل انما حرم ربی الفواحش…وأن تقولواعلی اللہ مالا تعلمون) يعنى: آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں… اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں-

اہم مسائل کی ترجیح دینا: ایک داعی کو چاہئے کہ اپنی دعوت کی ابتداء اہمیت کے حامل مسائل سے کرے چنانچہ سب سے پہلے توحید کی دعوت دی جائے پھر نمازاور دیگر ارکان کی دعوت دی جائے۔ اسی لئے جب نبی کریمﷺ نے معاذ بن اور ابوموسی الاشعری کو گورنربنا کر بھیجا تھا تو ان اسی کی وصیت وتلقین کی تھی۔

نرم خوں کا ہونا: ایک داعی کے لئے ضروری ہیکہ وہ مدعویین کے ساتھ نرمی ورحم کرم کا برتاو کرے تاکہ اس کے دعوت اچھے نتائج مرتب ہوں، نبی کریمﷺ کے حوالہ سے اللہ تعالی نے فرمایا:(فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک) اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں (٣) بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اعتدال وتوسط: شرعی دعوت کے لئے ضروری ہے کہ داعی اپنی دعوت کو اعتدال کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرے،افراط وتفریط کاشکارنہ ہو، محکم دلیلوں کو اساس بناکر دین کی نشرواشاعت کرے، مشتبہات سے اپنے آپ کو دور رکھے۔

اخیر میں دعا گو ہوں کہ بار الہ ہم سب کو کتاب وسنت کا پابند بنا، اور سنت نبوی کے مطابق دعوت وتبلیغ کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter