ماہ محرم اور عاشوراء کے روزے

مولانا قمر الدین بسم اللہ ریاضی

7 اگست, 2022

 

اللہ تعالی نے اپنی حکمت سے بعض مہینوں کو بعض پر فضیلت عطا کررکھی ہے؛ تاکہ ایک بندہ مومن کواپنی تساہلی وسستی کے ازالہ کا موقع مل سکے، اور ان مواسم سے مستفیض ہو کرکے اپنی اخروی زندگی کوسنوارسکے۔ ماہ محرم کو اللہ تعالی نے ایسی خصوصیات عطا کیں ہیں جو اس ماہ کو دوسرے مہینوں کے مقابلے ممتاز کرتی ہیں۔ ابھی ہم گذشتہ مہینے عشرہ ذی الحجہ اور اسکی خیروبرکات سے مستفیض ہو رہے تھے کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں ایک اور موقع نصیب فرمایا کہ ہم ماہ محرم کی فضیلتوں سے استفادہ کرسکیں۔درج ذیل سطور میں ماہ محرم اور عاشوراء کے روزوں کی فضیلت کے حوالہ کچھ باتیں اختصار کے ساتھ ذکرکی جارہی ہیں اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس مہینے کی خیروبرکات سے مستفیض ہونے کی توفیق بخشے آمین۔

ماہ محرم کی فضیلت: آسمان وزمین کی تخلیق کے ساتھ ہی اللہ رب العالمین نے سال میں بارہ مہینے متعین کئے، ان میں سے چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ قرار دیا، انہیں حرمت والے مہینوں میں سے ماہ محرم میں بھی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:(ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا أربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیہمن أنفسکم) (التوبۃ ۶۳)۔ ترجمہ: بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے۔اسی دن سے جب سے اس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا، ان میں چار(مہینے) حرمت والے ہیں۔ یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو…

مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالی نے صرف حرمت والے مہینوں کی تعداد کا ذکر کیا ہے، لیکن وہ کونسے مہینے ہیں اس کی وضاحت نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر کرتے ہوئے فرمایا: (الزمان قد استدار کہیءۃ یوم خلق السموات والأرض، السنۃ اثنا عشر شہرا منہا أربعۃ حرم:ثلاثۃ متوالیات:ذو القعدۃ، وذو الحجۃ، والمحرم، ورجب مضر، الذی بین جمادی وشعبان)(رواہ البخاری، باب حجۃ الوداع، ح ۶۰۴۴)۔ ,, زمانہ گھوم پھر کر اپنی حالت پر لوٹ آیا ہے، جس پر اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا۔سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذو قعدہ، ذو الحجہ، محرم، اور چوتھا مہینہ رجب مضر ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان پڑتا ہے,,۔

اسی طرح اللہ رب العالمین نے اس مہینے کی نسبت اپنی ذات کی طرف کر کے اس ماہ کی فضیلت کو روز روشن کی طرح عیاں کردیاہے، ارشاد نبوی ہے:(أفضل الصیام بعد رمضان شہر اللہ المحرم…)(رواہ مسلم، باب فضل صوم المحرم، ح ۳۶۱۱)۔,, رمضان کے بعد سب مہینوں سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں,,۔

مذکورہ بالا حدیث سے دوباتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ کہ اللہ کے نزدیک رمضان المبارک کے روزوں کے بعد ماہ محرم کا روزہ افضل ہوتا ہے، اور دوسری بات اینکہ ماہ محرم کی نسبت اللہ نے اپنی ذات مطہرہ کی طرف کی ہے جو اس مہینے کی فضیلت پرواضح دلیل ہے؛ کیونکہ ہر وہ چیز جس کی نسبت اللہ کی طرف کردی جائے وہ شرف وفضیلت کا باعث ہوتی ہے، جیسے خانہ کعبہ اور روزہ کی نسبت وغیرہ۔

تمام مسلمانان عالم عاشوراء کے روزہ کے اہتمام کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہیکہ جب نبی کریم ﷺ مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے آئے تو مدینہ کے یہودیوں کو دیکھا کہ یہ لوگ یوم عاشورا یعنی ۰۱ محرم کو روز ہ رکھتے ہیں، جب آپ ﷺ نے سبب دریافت فرمایاتو وہ کہنے لگے کہ اسی دن اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا،اور حضرت موسی علیہ السلام کو نجات دلایا تھا، لہذا ہم شکرانے کے طور پر عاشورا کے د ن روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا(فنحن احق واولی بموسی منکم، فصامہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وأمر بصیامہ)۔(رواہ مسلم،باب صوم یوم عاشوراء، ح ۰۳۱۱)۔,, میں موسی علیہ السلام کے(شریک مسرت ہونے میں)تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ لہذا آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا”۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت نبی کریم ﷺ نے عاشورا کا روزہ رکھا اور رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ اس دن کی یہودونصاری بڑی تعظیم کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:(فاذا کان العام المقبل ان شا ء اللہ صمنا الیوم التاسع)، قال فلم یأت العام المقبل، حتی توفي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔(رواہ مسلم، باب أی یصام فی عاشوراء، ح ۴۳۱۱),, اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا، لیکن آپ اگلے سال کے روزہ سے پہلے ہی رفیق اعلی سے جاملے,,۔

مذکور حدیث میں اس با ت کی وضاحت کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آنے والے سال میں نویں محرم کو بھی روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تھاتاکہ یہودونصاری کی مخالفت ہوسکے، چونکہ یہود بھی ۰۱ محرم(یوم عاشورا) کو روزہ رکھتے تھے،اور آپ کو دینی شعائر میں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا تھا، اسلئے آپ نے نویں محرم کا بھی روزہ رکھنے کا ارادہ فرمایا تھا۔اس لئے تمام مسلمانان عالم کو ماہ محرم میں نویں اور دسویں، یا دسویں اور گیارہویں کوروزہ رکھنا چاہیے تاکہ ہم نبی کریم ﷺ کی اس سنت کو زندہ کرسکیں اور اس کے ثواب سے بہرہ ور ہوسکیں۔

اور عاشوراء کے روزوں کے ثواب کے حوالے سے حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:(صیام یوم عاشوراء انی احتسب علی اللہ ان یکفرالسنۃ التي قبلہ)۔(رواہ الترمذي، باب ماجاء فی صوم یو م عاشوراء، ح ۲۵۷)۔,, مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عاشورا کے روزے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف کردے گا,,۔

اور اسی طرح سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی کہ جب نبی کریم ﷺ سے عاشورا کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:میں نے نبی کریم ﷺ کو سوا یوم عاشورا کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کے دوسرے دنوں سے افضل جان کر روزہ رکھتے نہیں دیکھا(رواہ البخاري، باب صیام یوم عاشوراء، ح ۶۰۰۲)

محرم الحرام کی بدعتیں:بلا شبہ ما ہ محرم حرمت وتقد س کا مہینہ ہے، ماہ محرم حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک عظمت وبرکت کاحامل اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، اس ماہ میں اللہ رب العالمین کی رحمت وبرکت کا خاص نزول ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا سطورمیں ذکر کیا گیا کہ اللہ رب العالمین نے اس مہینے کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے۔سابقہ امتیں اس ماہ کی قدر کرتی تھیں، نبی کریم نے اس کے ایام کو رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ایام بتایا ہے۔ لیکن امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اس کے فضائل وبرکات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایسے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے جس کا ثبوت نصو ص میں نہیں پایاجاتا ہے

بدعات ورسومات کو فروغ دیتا ہے، شریعت کا حوالہ دے کر نام نہاد مسلمان اس مہینے کی تقدس کو پامال کرتے ہیں، اور دین کے نام بے شمار بدعات وخرافات کو رواج دیتے ہیں جن کا حقیقت میں دین سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے، درج ذیل سطور میں اختصار کے ساتھ بعض کا ذکر کیا جارہا ہے:

(۱) محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی آڑ میں ڈھول تاشے،میوزک اورسارنگی کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں، نوحہ اور ماتمی مجالس کا بازار گرم ہوجاتا ہے، گریبان چاک کئے جاتے ہیں، چہروں کو نوچا جاتاہے، چھریوں اور نیزوں سے اپنے آپ کو زخمی کیا جاتا ہے، تعزیہ اور دلدل بنانے میں اپنی گا ڑھی کمائی کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، اور ان مجالسوں میں آہ وبکاو گریہ زاری کی جاتی ہے، اہل بیت کی محبت کے آڑ میں شرک کا کھلم کھلا ارتکاب کیا جاتا ہے، یاعلی، یا حسین المدد کے نعرے لگائے جاتے ہیں، یہاں تک بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو زبان درازیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور ان پر لعن وطعن کا لمبا سلسلہ چلتا ہے۔محسوس یوں ہوتا ہے کہ اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ محرم الحرام صرف اہل تشیع کا مہینہ ہے، اور اس حرمت والے مہینہ کو صرف کربلا کی قصہ گوئی کے لئے مختص کردیا جاتاہے، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ماتم کیا جاتاہے، حالانکہ اسی ماہ محرم میں سیدنا عمرفاروق رضی اللہ بھی شہید کئے گئے،آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں غزوہ احد کے موقع پر آپ ﷺ کے چچااور حسین رضی اللہ عنہ کے والد محترم حضرت علی رضی اللہ کے بھی چچا سید الشہداء حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بھی شہید کئے گئے، ان کی شہادت پر نبی کریم ﷺ، اور آپ کے پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کبھی بھی ماتم کی مجلسیں منعقد نہ کیں،اور نہ مرثیہ خوانی کی گئی،نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا طرز عمل ہم سب کے لئے بہترین نمونہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے:(لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر)۔ الاحزاب: ۱۲) ترجمہ: یقینا تمہارے لئے رسو ل اللہ ﷺ بہترین نمونہ ہیں ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(لیس منا من لطم الخدود،وشق الجیوب،ودعا بدعوی الجاہلیۃ)۔ رواہ الیخاری،باب لیس منا من شق الجیوب، ح ۴۹۲۱)۔,,وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں کو پیٹا، گریبان چاک کیاں اور جاہلیت کے بول بول کر بیان کیا,,۔

اسی طرح حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب اچھی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے: (لیکونن من أمتی أقوام یستحلون الحروالحریروالخمر والمعازف…)۔ رواہ البخاری، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر…، ح ۰۹۵۵),, میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زناکاری، ریشم کا لباس، شراب نوشی، اور گانے بجانے کو حلال بنالیں گے,,۔ مذکورہ حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ڈھول تاشے اور میوزک بجانا شرعا ناجائز ہے۔

(۲) ماہ محرم میں اور خاص طور سے نویں اور دسویں محرم کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر سبیلیں لگائی جاتی ہیں، سڑکوں اور چوراہوں پر لوگوں کو روک روک کر نیاز حسین کے نام پر روپئے وصول کئے جاتے، آخر کس اعتبار سے غیر اللہ کے نام پر نذر ونیاز کا مطالبہ کیا جاتا ہے، أیا یہ عمل ان کے ایمان کے لئے خطرہ کا باعث نہیں ہوسکتا ہے؟۔کیونکہ ان نذر ونیاز کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ راضی ہوجائیں تاکہ چڑھاوا چڑھانے والوں کی مرادیں پوری ہوسکیں، پس اگر کوئی بے اولاد ہو تو صاحب اولاد ہوجائے گا، اگر کوئی بیمار ہوگا تو اس کو شفاء کلی عطا ہوجائے گی، یہی تو وہ عقیدہ ہے جو انسان کو شرک میں متبلا کرتا ہے اور اسکے ایمان واسلام کو اکارت وبرباد کردیتا ہے۔

(۳) ۰۱ محرم الحرام یعنی عاشوراء کے دن قبروں پر جا کراگربتیاں جلائی جاتی ہیں، قبروں کی تزئین کی جاتی ہیں،خواتین ملت اسلامیہ بن سنور کر اختلاط کی پرواہ کئے بغیرقبروں پر مٹی ڈالنے جاتی ہیں، یقینا ان یہ عمل شریعت کے سراسر خلاف ہے، نصوص میں ان ثبوت نہیں، لیکن دھڑلے کے ساتھ ہمارے معاشرہ وسماج کے لوگ انجام دیتے ہیں، اور بدعات وخرافات کا ارتکاب کرے اس مہینے کی تقدس کو پامال کرتے ہیں۔

(۴) مسلمانوں کا ایک طبقہ شہادت حسین کی وجہ سے ماہ محرم کو غم کا مہینہ اور یوم عاشوراء کو سوگ کا دن سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے ان دنوں میں ایسے لوگ شادی بیاہ، خوشی کی تقریبات منعقد کرنے سے احتراز کرتے ہیں، نہ تو نئے لباس کی خریداری کی جاتی ہے او ر نہ ہی زیب تن کرتے ہیں، یہاں تک بعض لوگ سیاہ لباس زیب تن کرتے ہیں اورخواتین اس ماہ کو منحوس سمجھ کر بنار سنگھار نہیں کرتی ہیں۔ جب کہ ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، مذہب اسلام میں کسی ماہ وسال او ر شب وروز بلکہ کسی بھی چیز کی نحوست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، اس لئے نحوست کا نظریہ ہی بے بنیاد ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لا عدوی ولاطیرۃ ولا ہامۃ ولا صفر…) رواہ البخاری، باب لاصفر، ح ۷۰۷۵)۔,,امراض میں چھوت چھات صفر اور الو کی نحوست کی کوئی اصل نہیں…,,۔

(۵) ما ہ محرم کی بدعات ورسومات میں سے ایک بدعت تعزیہ داری بھی ہے۔مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ تعزیہ داری کا خاص اہتمام کرتاہے، اسے حضرت حسین کی شبیہ مان کر بہت تعظیم وتکریم کرتے ہیں۔ محرم کی دسویں تاریخ کو تمام تعزیہ پرست اپنا تعزیہ لے کر جلوس نکالتے ہیں، ڈھول تاشے بجاتے ہوئے کربلا کی طرف جاتے ہیں، پھر وہاں لوگوں کا ایک جمگھٹا ہوتا ہے، مردوزن میں خوب اختلاط ہوتا ہے، فواحش ومنکرات کا ارتکا ب کیا جاتا ہے۔یہ ساری چیزیں اسلام سے متصادم ہیں، شریعت اسلامیہ میں ان کا کوئی تصور نہیں، یہ سب من گھڑت رسومات ہیں جس کا ارتکاب ایک مسلمان دین سمجھ کر کے انجام دیتا ہے۔

قارئین کرام! ماہ محرم حرمت والا مہینہ، اس کا احترام کرنا ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے، بدعت وخرافات کا ارتکاب کرکے اس مہینہ کی تقدس پامال نہ کیاجائے، بلکہ بکثرت اعمال صالحہ کو انجام دے جایا،یوم عاشوراء کا روزہ رکھا جائے۔اخیر میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ الہی ہمیں اتباع سنت کا پابند بنا، بدعت وخرافات سے بچنے کی توفیق دے(آمین)۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter