جمعیتِ اہل حدیث سدھارتھ نگر کی علماء وائمہ مساجد سے نمازِ استسقاء کی اپیل

قحط سالی:انسان ہی کی شامت اعمال کا ثمرہ ہے: وصی اللہ مدنی

16 جولائی, 2022
wasiullah madani

 

سدھارتھ نگر/16جولائی/پریس ریلیز/کیئرخبر، کاٹھمانڈو، نیپال

ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر، یوپی کے ناظم اعلی مولانا وصی اللہ عبدالحکیم مدنی نے کیئرخبرکے چیف ایڈیٹر سے خشک سالی کے اسباب وعوامل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صوبہ اترپردیش کے کئی اضلاع قحط اور عذاب الہی کی زد میں ہیں، کسان پریشان نظر آرہے ہیں، کیوں کہ بارش کی قلت کے باعث ان کی کھیتیاں سوکھ رہی ہیں، اللہ اپنی اس عظیم نعمت کو اپنے بندوں پر کیوں روک لیتا ہے؟ کتاب وسنت میں اس کے کئی اسباب وجوہات بیان کئے گئے ہیں، ناظم جمعیت نے بعض واضح اسباب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ :انسان جب برے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے اور اپنے حقیقی پالنہار کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ اسے متعدد مصیبتوں، آفتوں سے دوچار کردیتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی: "خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔”

(الروم: 41)

"خشکی سے مراد زمین کے میدان، پہاڑ اور صحرا وغیرہ ہیں اور سمندر سے مراد سمندری جزیرے، ساحلوں پر آباد شہر اور بستیاں اور سمندروں میں سفر کرنے والے جہاز اور کشتیاں ہیں۔ فساد (خرابی) سے مراد ہر آفت اور مصیبت ہے، چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط، بیماری، فصلوں کی تباہی، بدحالی، سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں ہو۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے بحر و بر میں جو فتنہ و فساد بپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں، یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں۔ جب سے لوگوں نے توحید اور دین فطرت کو چھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم و فساد بھی بڑھ گیا ہے۔ شرک جیسے قولی اور اعتقادی ہوتا ہے اسی طرح شرک عملی بھی ہے، جو فسق و فجور اور معاصی کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس بات کی تعیین کہ آیت میں۔۔(جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا) سے مراد شرک ہے۔”

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ دنیا میں فتنہ و فساد کی کوئی بھی شکل ہو، یہ سب انسان کے اپنے اعمال کا ہی نتیجہ ہے اور یہ ساری مصیبتیں اور آزمائشیں انسان پر اس لئے آتی ہیں کہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور انہیں اپنی اصلاح کا ذریعہ بناتے ہوئے اپنے حالات میں تغیر پیدا کرے۔

*ناپ تول میں کمی بیشی کوئی معمولی نہیں بلکہ سنگین جرم ہے اور اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالی پیداوار میں کمی کرکے قحط میں مبتلا کردیتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جولوگ ناپ تول میں کمی بیشی کریں گے، اللہ تعالی ان کی پیداوار کم کر دے گا اور ان پر قحط مسلط فرمادے گا”

( الترغیب والتره‍يب، للمنذرى)

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ میں کمی بیشی کے باعث اس صفحہ ہستی سے نیست ونابود کردی گئی-

*جوقوم سماج کے غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کا حق غصب کرلیتی ہے، عشر وزکوة دینے سے اعراض کرتی ہے تو اللہ اپنی رحمت کو روک لیتا ہے، حضرت بریدہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں:

"جو قوم وعدے کی پاسداری نہیں کرے گی، ان کے درمیان قتل و غارت گری شروع ہوجائے گی اور جس قوم میں زنا کاری عام ہوجائے گی، ان پر اللہ تعالیٰ موت مسلط فرما دے گا اور جو قوم زکوٰة روک لے گی، اللہ تعالیٰ ان سے بارانِ رحمت کو روک لے گا”( الترغیب والتره‍یب، للمنذرى)

*جس معاشرے میں بے حیائی، فحاشی اور عریانی بدکاری اور زنا کاری عام ہوجائے وہ معاشرہ بھی عذابِ الٰہی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ قرآنِ حکیم نے سورہٴ یوسف میں اہل مصر کی اخلاقی بدحالی کانقشہ پیش کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ مصر کے عوام تو عوام رہے وہاں کے حکمرانوں کی بیگمات بھی زنا کاری کی دلدل میں بری طرح مبتلا تھیں اور بدکاری کی اس حد تک رسیا تھیں کہ اپنے ناپاک منصوبے میں ناکامی کی صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کوبے گناہ پابند ِسلاسل کرا دیا تھا۔ چنانچہ قرآن حکیم نے شہادت دی کہ اس زناکاری اور فحاشی کی دلدل میں پھنسے ہوئے معاشرے پر اللہ تعالیٰ نے سات سال تک قحط مسلط کئے رکھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما نے فرمایا :

"جس قوم میں زناکاری اور سود خوری عام ہوجائے وہ اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کرلیتی ہے”

( الترغیب والتره‍یب، للمنذرى)

*جو قوم صلہ رحمی کی بجائے قطعی رحمی اور آپس میں رحم و کرم کی بجائے سرکشی و بغاوت اور ظلم وستم پر اُتر آئے، اللہ اسے دنیا میں عذاب کا مزہ چکھا دیتے ہیں۔ حضرت ابوبکرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دنیا میں بھی جلدی دے دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا جمع رکھے جیسے کہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی ہے-”

(صحیح/سنن أبو داود:الأدب، رقم:4902)

تشریح : مطلب یہ ہے کہ بغی و عدوان(ظلم و ذیادتی) اور قطع رحمی یہ دو جرم ایسے ہیں کہ اللہ تعالی اخروی سزا کے علاوہ دنیا میں بھی عام طور پر جلد ہی ان کی سزا دے دیتا ہے۔ اس لیےقطع رحمی سے بچنا چاہئےاور ظلم و عدوان سے بھی۔

حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

"ظلم نہ کرو ورنہ تمہارا حال یہ ہوگا کہ تم دعائیں کرو گے لیکن تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی، اور تم بارش طلب کرو گے لیکن تم پر بارش نہیں برسے گی اور تم مدد طلب کرو گے لیکن تمہاری مدد نہیں کی جائے گی”

(مجمع الزوائد: ۵/۲۳۵)

امیر جمعیت مولانا محمد ابراہیم مدنی، ناظم جمعیت کے نائبین مولانا عبدالرب سلفی، مولانا سعود اختر سلفی،برادرم رفیع احمد (لبی) ماسٹر جاوید احمد(محاسب )اور دیگر حلقوں کے امراء ونظماء صاحبان نے اپنے مشترکہ بیان میں قوم مسلم سےدردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات کی پاسداری کرو، رب کائنات کی نافرمانی سے باز آو، تقوی وطہارت اور پاکیزگی اختیار کرو، اپنے اعمال بد کا جائزہ لو، ظلم وزیادتی سے گریز کرو، عریانی،فحاشی اور بدکاری سے اجتناب کرو، امر بالمعروف والنہی عن المنکرکا فریضہ انجام دو، انبیاء ورسل کی سنہری وپاکیزہ تعلیمات وہدایات کی پیروی کرتے ہوئے اسے عام کرو، بکثرت توبہ و استغفار کرو، طلب بارش کے لیے مسنون وثابت شدہ اوراد واذکار کا التزام کرو، خلوص دل سے صدقہ وخیرات کرو، اپنے روٹھے وناراض رب کو راضی کر لو، گاؤں سے باہر میدان میں جاکر سنت نبوی ﷺ کے مطابق نماز استسقاء کا اہتمام کرو، اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ سے معافی مانگو، بقول امام مجاھد رحمہ اللہ:

"جب بارش نہیں ہوتی ہے اور قحط سالی سخت ہوجاتی ہے تو جانور گناہ کرنے والے لوگوں پر لعنت بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں:یہ انسان کے گناہوں کی نحوست ہے-”

بارالہا! تو غفار وستار ہے، تیری ذات رحیم وکریم ہے، ہم تیری رحمت سے مایوس نہیں ہیں، ہماری خطاوں، لغزشوں اور عملی کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے باران رحمت نازل فرمادے تاکہ ہماری سوکھی کھیتیوں میں ہریالی اور نئی زندگی آجائے-

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter