توہین رسالت ناقابل معافی جرم

پرویز یعقوب مدنی/خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال

13 جولائی, 2022
parwez yaqoob madni
 ماضی قریب میں پڑوسی ملک بھارت سے شان رسالت میں وارد ہونے والی بعض باتیں بذریعہ سوشل میڈیا سننے کو ملیں، بھارت کی حزبیت زدہ پارٹی کے بعض ممبران نے آخری نبی ﷺ اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں بعض بھونڈے اور بھدّے قسم کا اعتراض کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کی رگ حمیت کو جھنجھوڑ دیا، پوری دنیا کے مسلمانوں نے اپنی اپنی سطح پر نبی اکرمﷺ سے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت دیتے ہوئے مذمتی بیان جاری کیا۔ مفاد پرست ناپاک اور بدبودار ملعونوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اپیلیں کیں۔
 ایک مومن کے مومنانہ اوصاف میں سے ہے کہ جب اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیاں ہوں تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، ایسے ہی نبی اکرمﷺ کے تئیں ایک مرد مومن کا حق ہے کہ آپ کی ذات پر ہونے والے بہتان و اعتراضات کا دنداں شکن جواب دے کر اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیں۔ پڑوسی ملک بھارت سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہتان تراشی کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ اس کا سلسلہ بڑا پرانا ہے۔
 تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت کو بھی دشمنان انبیاء نے نشانہ بنایا تھا، آخری نبی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بار بار پھبتیاں کسی گئیں، آپ کی شخصیت پر تیر و نشتر ماضی میں بھی چلائے گئے، جس کی سلف صالحین نے حسب استطاعت سخت نوٹس لیا، کبھی تحریر تو کبھی تقریر کی شکل میں۔ کبھی مباہلہ اور کبھی مجادلہ کی شکل میں، کبھی پمفلٹ کی اشاعت تو کبھی تالیف کی شکل میں، کبھی خطبہ و خطابات تو کبھی وعظ و تذکیر کی شکل میں۔ مسلم علماء و عوام نے سرور کونین، رحمة للعالمين، نبی اکرمﷺ کی سیرت، آپ کے عادات و اطوار، آپ کے رہن سہن، آپ کے امور و معاملات، اپنوں اور غیروں سے آپ کے تعلقات کی کیفیات وغیرہ سے لوگوں کو آگاہ کیا اور آپ کی ذات پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف آہنی دیوار و چٹان بن گئے.
نبی اکرمﷺ کی ذات پر ایمان لانا، آپ کی اطاعت و فرماں برداری کرنا، آپ سے بے پناہ اور ہرچیز سے زیادہ محبت اور آپ کی غایت درجہ تعظیم وتوقیر کرنا، آپ کی ذات یا آپ کے اوصاف وکمالات اور اعمال پر اعتراضات پر آپ کی جانب سے دفاع کرنا مومنانہ شان و اوصاف اور ایمان کا تقاضہ ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا: "لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنة” کہ نبی اکرمﷺ کی ذات تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونہ اور آئڈیل ہے۔
دوسری جگہ فرمایا: "قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله”
اے نبی لوگوں سے کہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے سچی محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کو اپنے لئے لازم کرلو اللہ آپ سے محبت کرنے لگے گا۔
مشہور شاعر حفیظ جالندھری نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
محمد ﷺکی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمدﷺ کی محبت خون کے رشتوں سے بالا ہے
یہ رشتہ دنیوی قانون کے رشتوں سے بالا ہے
محمدﷺ ہے متاعِ عالم ِایجاد سے پیارا
پدر، مادر، برادر، جان، مال، اولاد سے پیارا
باری تعالی نے سید المرسلین رسالت مآبﷺ کو جس عظمت و رفعت اور بلند و برتر مقام پر فائز فرمایا ہے وہ کسی صاحب بصیرت و بصارت سے مخفی نہیں، خود اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا "ورفعنا لک ذکرک” (ہم نے آپ کے مقام و مرتبہ کو بلند کیا)۔
اس پوری کائنات میں آپ ﷺ کی ذات نہایت اعلی اور بلند تھی، اس روئے زمین پر موجود ہر مسلمان آپ کا نام کلمہ شہادت میں، موذن اذان و اقامت میں، نمازی نماز اور تشھد نیز ہر مومن و مسلم کے دل و دماغ میں بصد احترام موجود ہوتا ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس دور حاضر کے بعض عاقبت نااندیش دشمناں اسلام نبی اکرمﷺ کی ذات کو نشانہ بناتے ہوئے آپ کے اعمال پر یاوہ گوئی کرتے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینے اور نبی کی سیرت و صورت کا بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ احقاق حق اور ابطال باطل ہو اور آپ کی ذات پر طنز وتعریض کرنے والے یہ ملعون سمجھ سکیں کہ غیرت مند مسلمان دنیا کی ہر تکلیف اور پریشانی کو برداشت کرسکتا ہے لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض وہ کبھی اور کسی میں بھی قبول نہیں کرسکتا۔ ایسے افراد ملعون ہیں، ان پر اللہ کا عذاب ہے اور ایسوں کی سزا گردن زدنی ہے۔
دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرنا اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لئے اشد ضروری ہے۔ اس کے بغیر اسلام پر کماحقہ عمل ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اہل اسلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کرنے کا حکم دیا ہے کہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ محبت ان سے کرنی چاہئے تاکہ جب ان کی سیرت پر چلیں گے تو پھر نفس یا کوئی اور ذات رکاوٹ نہ بن سکے اسی بارے بخاری کتاب الأیمان والنذور میں روایت ہے کہ ایک بار عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
 یا رسول اللہ لأنت أحب الی من کل شئی الا من نفسی فقال النبی ﷺ لا والذی نفسی بیدہ حتی اکونَ احبَّ الیک من نفسک فقال عمر فانہ الان لانت احب الی من نفسی فقال رسول اللہ ﷺ الان یا عمر
اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنی ذات کے علاوہ سب سے زیادہ محبوب ہیں مگر چونکہ اس سے سیرت النبی ﷺ پر عمل کرنے میں بہترین موافق ماحول نہیں بن سکتا تھا پس اللہ کے نبی ﷺ نے ان کی اصلاح کردی اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو لازم قرار دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چلتا پھرتا قرآن تھے، جو ان کی سیرت کو داغدار کرے گا وہ سمجھو کہ قرآن کو داغدار کرے گا۔ آج کفار یہی چاہتے ہیں کہ آپ کی ذات کو داغدار کیا جائے تاکہ قرآن بھی داغدار ہو جائے اور مسلمانوں کو سیدھا راستہ دکھانے والا منبع ہی لوگوں کی نظروں میں قابل اعتبار نہ رہے اوراس طرح اس دعوت کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
یہ بات سمجھنا ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ کفار کو شروع دن سے ہی کسی رسول کی ذات سے دشمنی نہیں رہی، بلکہ ان کی تعلیمات اور سیرت سے ہی دشمنی رہی ہے، چنانچہ تمام کافر اقوام ہر نبی کی بعثت سے پہلے ان کی بڑی عزت کرتے تھے مثلا عیسی علیہ السلام کو وہی بنی اسرائیل والے پہلے مسیح یعنی نجات دہندہ کہتے تھے بعد میں جب اللہ کا پیغام یعنی دعوت شروع کی تو ان کو سولی پر چڑھانے کی کوششیں کرنے لگے اسی طرح ہمارے نبی کریم ﷺ کو بھی مکہ والے صادق و امین کہتے تھے حتی کہ حجر اسود لگانے کے وقت آپ کے فیصلے کو بے چون و چراں تسلیم کر لیا حالانکہ اس وقت جس قبائلی حمایت پر تلواریں نکالی تھیں اس قبائلی حمایت میں وہ جان دے دیتے تھے مگر تلوار اندر نہیں کرتے تھے تاہم آپ کے فیصلے پر بات مان لی۔ اسی بارے اللہ تعالی نے فرمایا:
انھم لا یکذبونک ولکن الظلمین بآیات اللہ یجحدون
یعنی یہ کفار مکہ آپ کی ذاتی کردارکو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان کی دشمنی تو اللہ کی آیات یعنی اسلام کی تعلیمات سے ہیں۔
اب چونکہ آپ ﷺ کی سیرت ساری کی ساری قرآن ہے یعنی وہی پیغام جس سے باطل کو دشمنی ہمیشہ سے رہی ہے تو آج بھی باطل مغرب آپﷺ کی ذات کے نمبر ایک ہونے پر تو کتابیں لکھتا ہے جیسا کہ مائیکل ہارٹ وغیرہ نے کیا ہے تو دوسری طرف آپ کی تعلیمات یعنی وہ سیرت جو چلتا پھرتا قرآن ہے اس کی گستاخی کی جاتی ہے۔ یہ گستاخی کرنے والے اور ان کے ہمنوا کفار یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو پھر اس قرآن کو بھی جلانا پڑے گا کیونکہ ان کے نزدیک اس کا اصل منبع نعوذ باللہ قرآن اور سیرت النبی ہے
شان رسالت میں گستاخی کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ دشمنان اسلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رسالت کو ہمیشہ اپنی کم ظرفی اور کمینگی کے اظہار کا نشانہ بنایا ہے۔
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ان مواقع پر کیا کرنا چاہیے؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شریعت کے احکام کے مطابق ناموس رسالت کادفاع کرسکیں، اس سلسلے میں ہمیں قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل امور کی جانب بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
1)اسلامی تعلیمات کی مکمل پیروی اور غیر اسلامی نظریات سے دور رہنا۔
2)عالمی طور پر متحد ہو کر "یو این او” کو ایسے قوانین وضع کرنے پر مجبور کرنا، جس میں انبیاء کرام علیہم السلام اور دیگر مذہبی سربراہوں کی اہانت کرنے والوں کو قتل کی سزا دی جائے۔
3)نمازوں کا اہتمام۔
4)زندگی کے ہر موڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل۔
5)بدعات وخرافات سے مکمل اجتناب۔
6)صحابہ سے محبت اور ان کی سیرت کا مطالعہ۔
7)ہر دنیوی ودینی معاملہ میں علماء سے رہنمائی حاصل کرنا۔
8)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اکرمﷺ سے حقیقی محبت کرنے والا بنائے اور آپ کے مقام کو سمجھتے ہوئے دوسروں تک آپ کی جامع و ہمہ گیر شخصیت سےمتعلق صحیح معلومات پہونچانے والا بنائے نیز دشمنان اسلام کو حق قبول کرنے کی توفیق دے۔ آمین

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter