قربانی کے فضائل و احکام

پرویز یعقوب مدنی  خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال

7 جولائی, 2022
قربانی شعائر اسلام میں سے ایک اہم مالی عبادت ہے۔اسی لئے اس عمل کو بڑی فضیلت اور اہمیت حاصل ہے
تاریخ اور مذاہب کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ جتنی قدیم ہے قربانی کی تاریخ بھی تقریباً اتنی ہی قدیم ہے،
فرمان باری تعالی ہے:
"ولكل أمة جعلنا منسكا لیذكروا ٱسم ٱلله علىٰ ما رزقهم من بهیمة الأنعـام فإلـٰهكم إلـٰه و احد فله أسلموا وبشر ٱلمخبتین”(الحج:٣٤)
ترجمہ: اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
پوری دنیا سے اہل ایمان ہر سال ماہ ذی الحجہ میں پورے جوش وخروش اور رضاء الہی کی خاطر سیدنا ابراہیم اور آپ کے لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے حسب استطاعت اپنے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔
قربانی عربی زبان کے لفظ "قرب”سے نکلا ہے ،جس کے معنی ہیں "کسی شئے کے نزدیک ہونا”-
شرعی اصطلاح میں : ذبح حیوان مخصوص بینة القربة فی وقت مخصوص. یعنی مخصوص وقت میں اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص جانور ذبح کرنا "قربانی” کہلاتا ہے۔ (درِمختار٩/ ٥٢٠ کتاب الاضحية)۔
بعض کہتے ہیں کہ "قرباني‘‘ کا لفظ قربان سے نکلا ہے، عربی زبان میں قربانی اس عمل کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے ،خواہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات، لیکن عرفِ عام میں یہ لفظ قربانی کے جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔قرآن کریم میں یہ لفظ ایک سے زائد جگہ مستعمل ہوا ہے اور اکثر مواقع پرقربانی کے جانور کا ذبیحہ ہی مراد ہے نیز ذخیرہ احادیث میں محدثین نے کتاب الأضاحي اور ابواب الأضاحي کے نام سے کتاب اور ابواب کو ذکر کرکے قربانی کی اہمیت اور اس کے متعلقہ مسائل کو ذکر فرمایا ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے: "واتل علیهم نبأ ٱبنی ءادم بالحق إذ قربا قربانا فتقبل من أحدهما ولم یتقبل من ٱلـٔاخر قال لأقتلنك قال إنما یتقبل الله من المتقین” (المائدہ: ۵)
ترجمہ:
اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے اللہ تعالی (کی جناب میں) کچھ قربانیاں پیش کیں تو ایک کی قربانی تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ اللہ رب العالمین پرہیزگاروں ہی کی (قربانی) قبول فرمایا کرتا ہے۔
*قربانی کی مشروعیت کے دلائل :*
قرآن مجید سے دلائل:
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
"فصل لربك وانحر” (الكوثر)
ترجمہ: اللہ تعالی کے لیے ہی نماز ادا کرو اورقربانی کرو۔
اورایک دوسرے مقام سورہ انعام کے اندر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
"قل إن صلاتی ونسكی ومحیای ومماتی لله رب العـٰلمین لا شریك له وبذ ٰ⁠لك أمرت وأنا أول المسلمین (الأنعام ١٦٢-١٦٣)
ترجمه: آپ کہہ دیجیے یقینا میری نماز اور میری ساری عبادت اورجینا میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالی ہی کے لئے ہے جو سارے رب کا مالک ہے، اس کا کوئي شریک نہيں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اورمیں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں ۔
تیسرے مقام پر سوره حج میں اللہ تعالی نےاس طرح فرمایا :
"ولكل أمة جعلنا منسكا لیذكروا ٱسم ٱلله علىٰ ما رزقهم من بهیمة ٱلأنعـٰم فإلـٰهكم إلـٰه و ٰ⁠حد فلهۥ أسلموا وبشر ٱلمخبتین” (الحج ٣٤)
ترجمہ: اورہر امت کےلیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پراللہ تعالی کا نام لیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہيں، سمجھ لوکہ تم سب کا معبود والہ برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ اورعاجزی کرنے والوں کوخوشخبری سنا دیجیے۔
*سنت نبویہ سے دلائل :*
عن أنس قال : ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين ، فرأيته واضعا قدمه على صفاحهما، يسمي ويكبر، فذبحهما بيده.(بخاري ومسلم )
ترجمہ: جناب انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ وسفید مینڈھوں کی قربانی دی انہيں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور( ذبح کرتے ہوئے ) بسم اللہ اللہ اکبر کہا اوراپنا پاؤں ان کی گردن پررکھا ۔
عن عقبة بن عامر الجهني قال : قسم النبي صلى الله عليه وسلم بين أصحابه ضحايا، فصارت لعقبة جذعة، فقلت : يا رسول الله، صارت جذعة. قال : ” ضح بها ".
ترجمہ: صحابی رسول جناب عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے مابین قربانیاں تقسیم کیں توعقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حصہ میں جذعہ آیا تو وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حصہ میں جذعہ آیا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کوہی ذبح کردو ۔ (بخاری)
عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: "من ذبح قبل الصلاة فإنما ذبح لنفسه، ومن ذبح بعد الصلاة، فقد تم نسكه وأصاب سنةالمسلمين”.
ترجمہ: صحابی رسول جناب انس بن مالك رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھی نماز عید سے پہلے قربانی کی گویا اس نے اپنے لئے جانور کو ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ( قربانی کا جانور ) ذبح کیا تواس کی قربانی ہوگئي، اوراس نے مسلمانوں کی سنت پرعمل کرلیا۔(بخاری)
عن البراء ، قال النّبيّ صلّى الله عليه وَسَلَّمَ : ” من ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه، وأصاب سنة المسلمين ".
ترجمہ: صحابی رسول جناب براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھی نماز ( عید ) کے بعد (قربانی کا جانور) ذبح کیا تواس کی قربانی ہوگئی، اور اس نے مسلمانوں کی سنت پرعمل کرلیا۔ (بخاری)
مذکورہ بالا نصوص سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے خود بھی قربانی کے جانور ذبح کئے اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم بھی قربانی کرتے رہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ملت اسلامیہ کو باخبر کیا کہ قربانی کرنا مسلمانوں کی سنت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔
مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پراجماع ہے، علماء اسلام نے اس اجماع کو نقل کیا ہے طوالت کی خاطر علماء کے اقوال سے صرف نظر کیا جارہا ہے۔
*قربانی کا حکم:*
قربانی کے حکم کے متعلق فقہاء کا شدید اختلاف ہے بعض نے واجب بعض سنت اور بعض سنت مؤکدہ کہتے ہیں جبکہ راجح قول کے اعتبار
قربانی یہ سنت مؤکدہ ہے یہی جمہور علماء کرام سمیت امام مالک امام شافعی اور امام احمد کا مسلک ہے۔
علامہ محمد بن عثيمین رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
جوشخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہواس کے لیے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ، لھذا انسان اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے۔(فتاوی ابن عثیمین(2 /661) واللہ اعلم.
*قربانی کا مقصد*
اللہ رب العالمین نے واضح انداز میں فرمایا: "لن ینال الله لحومها ولا دماؤهاولـٰكن یناله التّقوىٰ منكم” (الحج: ٣٧)
 ترجمہ: اللہ رب العالمین آپ کی قربانی کا گوشت اور خون بالکل نہیں پہونچتا بلکہ آپ کا تقوی اور خوف الہی اللہ تعالی تک پہونچتا ہے۔
 معلوم ہوا کہ قربانی کا مقصد اللہ کے تقوی کا حصول ہے ہم مسلمانوں کو رب کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے کے جینا اور مرنا چاہئے یر حال میں اسلام کے سچے وفادار بن کر ہر لمحہ اطاعت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزارنا چاہئے۔
*قربانی کا وقت*
قربانی کا وقت یوم النحر 10/ذو الحجہ کو عید الاضحی کی نماز سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس کے ایام وہی ہیں جو مزدلفہ سے واپسی کے بعد منیٰ میں قیام کے لئے مقرر کیے گئے ہیں۔
اصطلاح میں انھیں ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ ایام تشریق یوالنحر کے علاوہ ۱۱و ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ ہے۔
قربانی کے علاوہ ان ایام میں سنت ہے کہ ہر نماز کی جماعت کے بعد تکبیریں کہی جائیں۔ نمازوں کے بعد تکبیر کا یہ حکم مطلق ہے۔ اس کے کوئی خاص الفاظ شریعت میں مقرر نہیں کیے گئے ہیں۔
*بھیمة الانعام* سے مراد بھیڑ، بکری، گائے اور اونٹ نر اور ماندہ جانور کوکہتے ہیں۔
*قربانی کے جانوروں کے عمر کی تعیین*
شرعی دلائل اس بات پر موجود ہیں کہ بھیڑ، دنبہ کا سال بھر کا بچہ  گرچہ دانتا نہ ہو(کچھ لوگ چھ مہینہ کہتے ہیں لیکن وہ درست نہیں ہے) اور ایک سالہ بکری جب وہ دانت گئی ہو، دو سالہ گائے اور بھینس جب وہ دوندی ہوگئی ہو، اور پانچ سالہ اونٹ سے کم عمر جانور ہدی (حج کی قربانی) یا عید کی قربانی میں کفایت نہیں کرے گا، مذکورہ قرآنی آیت میں  میسر قربانی سے یہی مراد ہے،.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے لا تذبحوا الا مسنة (مسلم) کہ دانت والا جانور ہی قربانی کرو اگر وہ نہ ملے تو مینڈھا یا دنبہ کا جذعہ (جوسال بھر کا ہوجائے) ذبح کرو.
اس سلسلہ میں خطيب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری رحمہ اللہ کا کتابچہ تحقیق مسنہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.
*جن جانوروں کی قربانی صحیح نہیں ہے*
نبی اکرمﷺ کی احادیث کوکھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ مندرجہ اوصاف کے حامل جانوروں کی قربانی سے شریعت اسلامیہ نے منع فرمایا ہے اور یہ درست نہیں ہیں :
1. ایسا کانا جانور جس کا کاناپن ظاہر ہو ۔
2.ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو ۔
3.ایسا جانور لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔
4.ايسا انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
5. ايسا جانور جس کا سینگ نصف یا نصف سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔
6. ايسا جانور جس کا کان نصف یا نصف سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔
7. مذکورہ عیوب سے قبیح ترین عیوب میں مبتلا جانور جیسے اندھا اور ٹانگ کٹا جانور۔
*حاملہ جانور کی قربانی:*
حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے اور اس کے پیٹ کا مردہ بچہ حلال ہے۔
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے:
وأجمعوا علي أن الجنين اذا خرج حياً، أن ذكاته بذكاة امه.
کہ ذبیحہ کے پیٹ سے بچہ مردہ برآمد ہو تو اُس کی ماں کی قربانی اس کے لیے کافی ہوگی۔(کتاب الاجماع، باب الضحایا والذبائح ص۵۲)
*خصی جانور کی قربانی کا حکم:*
خصی جانور کی قربانی جائز ہے اور جانور کا خصی ہونا قربانی میں عیب نہیں ہے۔سلف صالحین میں سے بعض اہل علم جانوروں کو خصی کرنا مکروہ سمجھتے تھے اور بعض اہل علم جانوروں کو خصی کرنے کی رخصت دیتے تھے۔نبی کریمﷺ سے جانور کو خصی کرنے کی ممانعت ثابت نہیں ہے۔
*بھینس کی قربانی کا حکم*
بھینس کی قربانی علماء و فقہاء کے یہاں محل غور ہے اختلاف کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھینس بقر کی قسم سے ہے یا نہیں۔
جن لوگوں نے گائے کی صنف تسلیم کیا ہے ان کے نزدیک جائز اور درست ہے۔ اور خاکسار کی رائے بھی یہی ہے۔
بعض علماء بھینس کو گائے سے الگ مانتے ہیں ان کے یہاں بھینس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم
*میت کی جانب سے قربانی کا حکم*
*علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :*
اصل تو یہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اورجوکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں۔
*فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں:*
پہلی قسم :
کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئي شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اورفوت شدگان کی نیت کرلے ( تویہ جائز ہے )۔
اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوانہوں نے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اوران کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے۔
دوسری قسم :
یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سےعاجز ہوتوپھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
"فمن بدله بعد ما سمعهۥ فإنما إثمه على ٱلذین یبدلونه إن ٱلله سمیع علیم”
ترجمہ:  تو جو کوئی بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تو اس کا گناہ ان پر ہے جو اسے تبدیل کرتے ہیں یقیناً اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔ (البقرة: 181)
تیسری قسم :
زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے (وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اور والدہ کی جانب سے علیحدہ اورمستقل قربانی کرے) تویہ جائز ہے، فقھاء حنابلہ نے اس کوبیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچے گا اوراسے اس سے فائدہ ونفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے۔
لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سے بالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئي قربانی نہیں کی، نہ توانہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيز اقرباء میں سے تھے۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی، اور نہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سےپیاری تھیں۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو۔
اور ہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جوآج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اوراسے (حفرہ قربانی) کا نام دیتے اور یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک ہونا جائز نہيں، یا پھروہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے، یا ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اوراپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں۔
اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئي شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کونہ کریں۔
*قربانی کرنے والے کے احکام*
ام المومنین جناب ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا” جب دس دن (یعنی ذی الحج کے پہلے دس دِن) آجائیں اور تم میں کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور جسم کو مت چھوئے۔ (مُسلم)
بالوں اور جسم کو مت چھوئے کا کیا مطلب ہے ، اسی حدیث کی دوسری دو روایات جو اس کے بعد ہی امام مسلم نے نقل کی ہیں، ان دو روایات میں اس حکم کی تفصیل ملتی ہے، یہ بھی اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ایک روایت کے الفاظ ہیں: "إذا دخل العشر، وعنده أضحية يريد أن يضحي فلا يأخذن شعرا، ولا يقلمن ظفرا ". جب دس دن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دس دن ) آجائیں اور کسی کے پاس قربانی کے لئے جانور ہو اور وہ اسے قربان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں میں سے بالکل کچھ نہ لے (یعنی کوئی بال نہ کاٹے )اور ہرگز اپنے ناخن نہ کاٹے۔
دوسری جگہ فرمایا "إذا رأيتم هلال ذي الحجة،وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره،وأظفاره”۔
ترجمہ: جب تم لوگ ذی الحج کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے باز رہے۔
ان تمام احکام کی موجودگی میں قربانی کرنے والے کسی بھی شخص کے لئیے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ قربانی کرنے سے پہلے بغیر ضرورت کے اپنے جسم سے کوئی بال لے یا ناخن کاٹے، ہاں کسی ضرورت کی صُورت میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔
*قربانی نہ کرنے والا بھی اپنے ناخن اور بال وغیرہ کاٹنے سے پرہیز کرے*
صحابی رسول جناب عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل : ” أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة ". فقال الرجل : أرأيت إن لم أجد إلا منيحة أنثى، أفأضحي بها ؟ قال : ” لا، ولكن تأخذ من شعرك، وتقلم أظفارك، وتقص شاربك، وتحلق عانتك، فذلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل ".
ترجمہ: مجھے قربانی والے دن کو عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، جسے اللہ تعالی نے اس امت کے لئے مقرر فرمایا ہے۔یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اگر میرے پاس دودھ والے جانور کے سوا کوئی دوسرا جانور نہ ہو‘ تو کیا میں اسے ہی قربانی میں پیش کردوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ تم (ان دونوں میں ناخن اور بال چھوڑے رکھو اور) عید کے دن (نماز کے بعد) اپنے بال، ناخن کاٹ لو، مونچھیں تراش لو اور زیر ناف بال کی صفائی کرلو‘ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ تمہاری مکمل قربانی ہوگی۔
(سنن ابی داود: ۲۷۸۹، سنن النسائی: ٤۳٦۵، مسند أحمد: ٦۵۷۵، صحیح ابن حبان: ۵۹۱٤، السنن الکبریٰ للبیھقی: ۱۹۰۲۸، مستدرک الحاکم: ۷۷۳٦، اس حدیث کی سند کو امام حاکم، ذہبی، عینی، احمد شاکر، زبیر علی زئی، رحمهم اللہ وغیرھم نے صحیح قرار دیاہے)
معلوم ہوا کہ ہمارے وہ احباب جو اپنے دلوں میں سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کا نیک جذبہ رکھتے ہیں، لیکن کسی شرعی مجبوری کے سبب قربانی کرنے سے قاصر ہیں، ان کے لئے خوشخبری ہے کہ اگر وہ قربانی کا ارادہ رکھنے والوں کی طرح اپنے بال اور ناخن استحبابی طور پر چھوڑ دیں، اور عید کی نماز کے بعد کاٹیں‘ تو مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں وہ اللہ کے فضل سے مکمل قربانی کا ثواب پائیں گے۔
 سچ کہا ہے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کہ: ’’یقینا سچی نیت معمولی (مشروع) عمل کو بڑا بنا دیتی ہے‘‘۔ (تاریخ الاسلام للذھبي: ۱۲؍ ۲۳۷)
*استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید*
عن أبي هريرة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : "من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا”. (ابن ماجة)
صحابي رسول سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس وسعت ہو اور وہ اس کے باوجود بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (یہ روایت حسن ہے)
پتہ چلا کہ جو لوگ مالی وسعت یعنی قربانی کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی قربانی ادا نہیں کرتے انہیں نبی اکرمﷺ کے اس فرمان سے ڈرنا چاہئے اور اپنے ایمان کا جائزہ لیں کہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے سے بڑے ثواب سے محروم ہونے کے ساتھہ ساتھہ نبی کریم ﷺ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور نبی اکرمﷺ عیدگاہ میں حاضری سے روک دیں گے تو پہر ایسے شخص کا کہاں ٹھکانہ ہوگا۔؟
جبکہ عیدگاہیں اور مساجد اللہ تعالی کی محبوب جگہیں ہیں،جہاں جمع ہونے والوں پر بارگاہ الہی سے عفو و کرم کی بارشیں ہوتی ہیں، یہاں کی حاضری سے بد نصیب ہی کو روکا جا سکتا ہے، اس لئے بخل سے کام نہ لیجئے، جس کا یہ مال دیا ہوا ہے قربانی کا حکم بھی اسی کی طرف سے ہے۔ لہذا سلامتی کے حصول کے لئے حکم الہی کی تعمیل کیجئے.
 باری تعالی ہم تمام مسلمانوں کو قربانی کی فصیلت اور جملہ احکام کو سمجھنے کی توفیق دے نیز امت مسلمہ کی طرف سے کی جانے والی قربانی قبول فرمائے۔ آمین

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter