اعتکاف :تزکیہ نفس اور تقرب الہی کا ذریعہ ہےاس روحانی عبادت اور متروک سنت کو زندہ کریں:وصی اللہ مدنی
ضلعی جمعیت اہلِ حدیث،سدھارتھ نگر کےناظم مولانا وصی اللہ عبدالحکیم مدنی نے کئیر خبر، کاٹھمانڈو،نیپال کے ایڈیٹر سے دوران گفتگو متروک سنت اعتکاف کو زندہ کرنے کے سلسلے میں اہل ایمان حضرات سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمال میں سے ایک عمل اعتکاف بھی ہے، ہمارے رسول ﷺ ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام کرتے تھے، آپ کی اقتداء میں ازواجِ مطہرات اور عام صحابہ کرام اعتکاف کرتے تھے
اعتکاف عکف سے مشتق ہے، جس کا معنی لغت میں کسی جگہ ٹھہرنا، جمے رہنا یالازم پکڑنا اور اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:” اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو،”(البقرة:187)
اور شریعت میں اس کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص وقت ومقام میں متعینہ شرائط کے ساتھ مخصوص اطاعت کو انجام دینا
(آحکام القرآن للقرطبی)
اعتکاف کی مشروعیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے:ارشاد ربانی ہے:
"ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اورامن وامان کی جگہ بنائي ، تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو ، ہم نے ابراہیم اوراسماعیل علیہم السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اوررکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو” (البقرۃ ( 125 )
اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کافرمان ہے :
"اورعورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو”
(البقرۃ ( 187 )
حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے تک رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف کیا کرتے تھے،پھر آپ کے بعد ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی رہیں ۔
(صحیح بخاری: ( ح:2026 )
صحیح مسلم: ( ح:1172 )
اورکئي ایک علماء کرام نے اعتکاف کی مشروعیت پر اجماع نقل کیا ہے جن میں امام نووی ، ابن قدامہ، مقدسی ، اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ شامل ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 6 / 404 ) المغنی لإبن قدامہ المقدسی ( 4 / 456 ) شرح العمدۃ ( 2 / 711 ) ۔
اورشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہیں :
"اس میں کوئي شک نہيں کہ مسجد میں اعتکاف کرنا اللہ تعالی کا قرب ہے اوررمضان میں اعتکاف باقی مہینوں سے بھی افضل ہے ، اوریہ رمضان اورغیررمضان میں بھی مشروع ہے ۔ ا ھـ بالاختصار
دیکھیں : مجموع الفتاوی لإبن باز ( 15 / 437 ) ۔
اعتکاف کرنا واجب نہيں بلکہ سنت کفایہ ہے ، لیکن جب کوئي اعتکاف کی نذر مانے تویہ واجب ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
” جس نے اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کی نذر مانی اسے اطاعت کرنی چاہیے ، اورجس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے کی نذر مانی وہ نافرمانی نہ کرے”
(صحیح بخاری ( ح:6696 )
اور اس لیے بھی کہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا : اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دور جاہلیت میں مسجد حرام کے اندر ایک دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو” ۔ (صحیح بخاری( ح:6697 )
اور امام ابن المنذر نے اپنی کتاب "الإجماع ” میں کہا ہے :
"علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ اعتکاف کرنا سنت ہے ، لوگوں پر واجب وفرض نہیں ، لیکن اگر کوئي نذر مان کر اپنے آپ پر واجب کرلے تواس پرواجب ہوجائے گا ۔ اھـ”
دیکھیں الإجماع لإبن المنذر ( 53 ) و
کتاب ” فقہ الإعتکاف” تالیف :ڈاکٹر خالد المشیقح صفحہ ( 31 ) ۔
*اعتکاف کی شرطیں*
(1) مسلمان ہونا
(2) باتفاق علماء اعتکاف میں نیت شرط ہے
(2) عاقل ہونا
(3) باشعور و سمجھدار ہونا
(4)﴿عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ سے استدلال کیا گیا ہے کہ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ ازواج مطہرات نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔ اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف بیٹھنا صحیح نہیں۔ البتہ مسجد میں ان کے لئے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے، تاکہ مردوں سے کسی طرح کا اختلاط نہ ہو، جب تک مسجد میں معقول، محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو، عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور عورتوں کو بھی اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک نفلی عبادت ہی ہے، جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو، اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے۔ فقہ کا اصول ہے : [ دَرْءُ المَفَاسِدِ يُقَدَّمُ عَلَى جَلْبِ الْمَصَالحِ ]۔ ”مصالح کے حصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے۔“ (أحسن البیان )
(5) طہارت
(6) عورت کے لیےشوہر کی اجازت
(7) روزہ : بہت سے علماء کے نزدیک روزہ شرط نہیں
*اعتکاف کی حالت میں مباح امور*
(1) مسجد میں کھانا پینا ۔
(2)مسجد میں وعظ و نصحیت کرنا، امامت کرنا اور اذان واقامت کہنا
(3) اچھے کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا ۔
(4) ناخن تراشنا اور حجامت بنوانا ۔
(5) نمازِجمعہ کے لئےجانا واجب ہے-
(6) اگر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جارہی ہے تو اس میں شریک ہونا ۔
(7) کسی مریض کا گھر مسجد سے لگ کر ہے تو مسجد میں رہ کر بیمار پرسی کرنا ۔
(8) بالوں میں تیل لگانا، کنگھی کرنا ، بلکہ عورت بھی اپنے شوہر کے بالوں میں کنگھی کرسکتی ہے خواہ اس کے لئے اعتکاف کرنے والے کو اپنا سر باہر کرنا پڑے ۔
{ صحیح بخاری :2029، صحیح مسلم : 297 } ۔
(9) اپنے اہل خانہ سے ملاقات اور بات چیت کرنا اور بعض گھریلو مسائل پر گفتگو کرنا ۔
{ صحیح بخاری : 2038 ، الاعتکاف } ۔
(10) بغیر شہوت کے اپنی بیوی کو چھونا ۔
(11) خرید و فروخت سے متعلق بعض ضروری ہدایات دینا ۔
(12) زیارت کرنے والوں سے خیریت پوچھنا ، البتہ دیر تک گپ شپ میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے
(13) بوقت ضرورت اور جائز حد تک موبائل استعمال کرنا
(14) نفع بخش کتابوں کا مطالعہ اور جرائد ومجلات اور اخبارپڑھنا
(15) معتکف مسجد میں نکاح پڑھاسکتا ہے
*اعتکاف کے منافی امور*
(1)بغیر ضرورت مسجد سے باہر نکلنا ۔
(2) عورت سے صحبت کرنا ۔
(3) عورت سے بشہوت مباشرت کرنا ۔
(4) قصدا منی خارج کرنا ۔ [ ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض و نفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز اسلام سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑ دے تو یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے] ۔
(5) ہر وہ کام جو شرع کی نظر میں منع ہے وہ اعتکاف کے بھی منافی ہے ، جیسے جھوٹ ، غیبت وغیرہ ۔
(6) ہر وہ کام جو عبادت کے منافی ہے ، جیسے خرید و فروخت میں مشغولیت ، بلاوجہ کی گپ شپ ، یہ بھی حالت اعتکاف کے منافی ہے ، ان امور سے اعتکاف باطل تو نہیں ہوتا البتہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔
(7) بعض وہ عبادتیں جو فرض عین نہیں ہیں جیسے مریض کی زیارت ، نماز جنازہ اور دفن وغیرہ کے لئے بھی نکلنا جائز نہیں ہے ، البتہ راستہ چلتے کسی مریض کی خیریت پوچھ لینا جائے ہے ۔ [ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے بیمار پرسی کرلیتے تھے اس کے لئے ٹھہرتے نہیں تھے ۔ { سنن ابو داود :2472}
(8) ہر وہ کام جو انسان کی فطری ضرورت ہے جیسے قضائے حاجت ، کھانا پینا ، نہانا ، اگر کوئی مددگار نہیں ہے تو کھانے کی چیزیں باہر سے خریدنا وغیرہ کے لئے مسجد سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
*اعتکاف کا وقت*
اعتکاف کے لئے ضروری ہے کہ جس دن کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے اس دن کی رات آنے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے مثلا اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے ، البتہ اپنے معتکف یعنی جائے اقامت میں اکیسویں کی صبح کو داخل ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے ۔
{ صحیح بخاری :2033، الاعتکاف، سنن ابو داود : 2464، الصوم } ۔
*اعتکاف سے نکلنے کا وقت*
اعتکاف سے باہر آنے کا ایک وقت جواز کا ہے اور دوسرا استحباب کا ، جواز کا وقت یہ ہے کہ اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہے تو شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم دے اور گھر واپس آجائے کیونکہ شوال کا چاند دکھائی دیتے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے،اور مستحب وقت یہ ہے کہ عید کی صبح کو اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے اور سیدھے عیدگاہ جائے ، بعض صحابہ و تابعین کا عمل یہی رہا ہے چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے ۔
{ موطا :1/315، کتاب الاعتکاف } ۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اور بطور دلیل یہ حدیث پیش کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا اور جب اکیسویں کی صبح ہوئی جس صبح کو اپنے اعتکاف سے باہر آتے تھے فرمایا : ” مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَعْتَكِفِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ، ” جس نے ہمارے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کرے ۔
{ صحیح ابن خزیمہ : 3/352، 354 – نیز دیکھئے صحیح بخاری : 2027 ، الاعتکاف ، بروایت ابو سعید الخدری } ۔
____________________________
*تنبیہات*
(1) *لاإعتكاف إلافى المساجدالثلاثة* یعنی اعتکاف کے لئے تین مسجدوں کو خاص کرناصحیح نہیں ہے ، کیونکہ اس سلسلے میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث نقل کی جاتی ہے وہ ضعیف اور شاذ ہے ، نیز یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت کے کسی امام یا عالم نے عمل نہیں کیا ہے ، اس موضوع پر ایک مختصر اور جامع بحث مختصر قیام رمضان از علامہ البانی رحمہ اللہ کے مطبوعہ ترجمےمیں دیکھی جاسکتی ہے ، یا مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے :
(2) اعتکاف کی فضیلت میں وارد حدیثیں ضعیف ہیں-
(3)عورتوں کا اپنے گھروں میں یا مدرسہ کی عمارت میں اعتکاف کرنا سنت نبوی کی صریح مخالفت اور خود ساختہ عمل ہے کیونکہ صحت اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے
(4)مستحاضہ عورت اعتکاف بیٹھ سکتی ہے
(5) *نوية سنةالإعتكاف*
پڑھ کر مسجد میں داخل ہونا بدعت ہے
(6) اعتکاف سے واپسی پر معتکف کا والہانہ استقبال کرنا، پھولوں کا ہار پہنانا، بغل گیر ہونا اور معانقہ کرنا شرعا درست نہیں ہے-
(7) کرایہ پر کسی کو اعتکاف میں بیٹھانا سنت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے
آپ کی راۓ