*پھونک ڈالیں وہ چمن بھی تو ہنر ہوتا ہے* ـ راج ٹھاکرے نے حد کردی

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

11 اپریل, 2022
مسلمانوں کو گالی گلوج دواسلام کو برا بھلا کہو شہرت ،دولت ،سیکورٹی سب مل جائےگی ـ اور ایک فرقے میں مقبولیت بھی حاصل یوجائےگی ـاس وقت ملک ہندستان میں بڑی تیزی سے غیر قانونی وغیر آئینی بیان دے کر شہرت اور ایک فرقے میں مقبولیت حاصل کرنے کی ہوڑ لگی ہوئ ہے  ـ ستم ظریفی یہ بھی ہے کی حکومت، انتظامیہ، قانون، آئین، دستور،  عدلیہ  سب بے بس مجبور نظر آتے ہیں ـ یا انہیں رفتہ رفتہ مجبور بے بس و لاچار کردیا گیا ہے ـ کتنے شیطان صفت انسان  ہندو دہشت گرد قانون آئین دستور کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور مذہبی منافرت پیدا کرکے خوشگوار ماحول کو مسموم بنا دیتے ہیں ـ شرمناک وافسوس ناک بات یہ ہے کی ایسے مجرموں کو کیفر کردار پہنچانے کے بجائے  سیکورٹی وتحفظ فراہم کیا جاتا ہے ـ محافظ دستے دئے جاتے ہیں ـ جبکی  قانون ودستور کے مطابق انہیں  سزا ملنی چاہئیے اور جیل کی سلاخوں میں ڈالنا چاہئیے تاکہ کوئ شخص پھر ایسی جرئت وہمت نہ کر سکے ـ  کچھ فرقہ پرست فسطائ لوگ مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بناکر شہرت دولت اور اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ـ
آج اقتدار پر وہی برجمان  ہیں جنہوں نے فسادات کراوائے انسانوں کا قتل عام کروایا ـ جن کے ذریعہ  اربوں کھر بوں کی جائداد تباہ وبرباد کر دی  گئ جن کے زہریلے بیانات سے خونریز فسادات امنڈ پڑے ـ عورتیں بیوہ ہوئیں ،بچے یتیم ہوگئے، بے گناہ و معصوم لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ـ آج وہی انسان نما درندے حکومت کر رہے ہیں جو  درجنوں سیکڑوں سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں ، جن پر قتل ، اغوا ،دہشت گردی  ،عصمت دری کے مرتکب  ہیں ـ جو کھلے عام دستور ہند کو پاؤں تلے روندتے ہیں ـ جن کو جیل کی سلاخوں میں ہونا چاہئیے وہ آج مرکزی وریاستی وزراء بنے ہوئے ہیں ـ اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز بھی  ہیں ـ بھاجپا نے حد کر دی ہے ـ انہیں لوگوں کو  ہی سیاست انتظامیہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز کرتی ہے جن پر درجنوں مقدمات درج ہیں یا  سنگین جرائم میں ملوث رہے ہوں ـ مرکز میں اور ریاستوں میں وہی حکمراں اور وزراء ہیں جن پر سنگین جرائم کے الزامات ہی نہیں بلکہ وہ ارتکا ب بھی کرتے ہوں. دہلی کے فساد میں پولس انتظامیہ مکمل طور پر برہنہ ہوگئ تھی  ـ ان کی یکطرفہ کاروائ نے فسادیوں کی پشت پناہی نہیں کی بلکہ ان فسادیوں  کی اگوائ پولس نے ہی کی پتھر بازی گولہ بارود سے حملہ تلواروں کو لیکر دندناتے پھرنا یہ سب پولس کے سامنے ہوا   ـ اور  انوراگ ٹھاکر کے بیان نے تیل میں آگ ڈالنے کا کام کیا ـ کی "مارو سالوں کو گولی "ـ
ٹھاکر کے اس غیر قانونی بیان کو معمولی سمجھا ـ عدالت نے جو مضحکہ کیا ہے کی انہوں نے ہنس کر بیان دیا تھا کوئ گرفت نہیں ـ  عدالت کے اس فیصلے پر پوری دنیا میں ملک ہندستان کی جگ ہنسائ ہوئ اور عدالت سے انصاف کی امید ختم ہو گئ ہے.عدالت کی تھو تھو ہو رہی ہے ـ
کسی شاعر نے کہا ہے.
انصاف کی امید عدالت سے نہ رکھنا ـ
اس دور میں قاتل کی سزاکوئ نہیں ہے.
 مہاراشٹرا کا راج ٹھاکرے جس کی جوانی ہی ہفتہ وصولی غنڈہ گردی دہشت گردی میں ہی گزری ہے ـ جن پر قتل کا الزام بھی ہے ـ راج نے ایسا بیان دے ڈالا کی آج تک کسی نے اتنا خطرناک بیان نہیں دیا ہوگا ـ اذان پر پابندی کے علاوہ ای،  ڈی کو جانچ کے لئیے بھیجنا چاہئیے ـ اور ہندو ؤں سے اپیل کی وہ مساجد کے سامنے لاؤڈاسپیکر لے جاکر ہنومان چالیسہ بلند آواز میں پڑھیں ـ  ڈھول تاشے اور دیگر ذرائع کا استعمال کریں ـ  ہندو غنڈے،  دہشت گرد تلواروں چاپڑوں کے ساتھ بگھوا جھنڈا لہراتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے کئ مقامات پر طوفان بد تمیزی کی ـ مساجد پر چڑھنے اور بگھوا لہرانے کی وارداتیں ہوئیں ـ اس کے باوجود مسلمان خاموش رہے ـ دفاع تک نہیں کیا ـ راج ٹھا کرے نے نہ صرف مہاراشٹرا کا بلکہ پورے ملک کا ماحول خراب کیا ہے ـ مسلمان خوف ودہشت میں مبتلاء ہوگئے اور خاموش رہے،  کی اگر دفاع کرنے جائیں گے تو نتیجہ بہت ہی سنگین ہوگا ـ ناحق معصوم بے گنا ہ لوگ مارے جائیں گے ـ اور عوام کا ہی جانی مالی نقصانات ہوں گے ـ یہ وہی راج ٹھاکرے ہے جس کے بیان سے کئ اتر بھارتیہ نوجوان مہارشٹرا کے مختلف علاقوں میں تشدد کا نشانہ بنے تھے ـ دوکانوں ومکانقں کو نزر آتش کیا گیا تھا ـ اور درجنوں طلبہ مار دئیے گئے تھے  ـ اگر ایسے مجرموں کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتا تو کوئ دوبارہ  ہمت نہیں کر پاتا اور ریاست کا ملک کا امن وامان غارت نہ ہوتا ـ
یہ بھی حقیقت ہے اذان سے متعلق بیان دینا
 راج ٹھاکرے کو بھاری پڑا ہے  مسلم عہدیدار وں  نے منسے  پارٹی چھوڑ دی ایک مسلم لیڈر  نے کہا کہ ’’راج ٹھاکرے ریاست کی ترقی کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے، لیکن اب وہ اپنی سیاست کے لیے ذات اور مذہب کی حمایت لے رہے ہیں۔‘‘گزشتہ دنوں مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے سربراہ راج ٹھاکرے نے مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر سے اذان دیئے جانے پر اعتراض ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ لاؤڈاسپیکر بند کیا جانا چاہیے ورنہ اس سے بھی زیادہ تیز آواز میں ہنومان چالیسا بجایا جائے گا۔
نوراتری کے  تہوار کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے ، بی جے پی-آر ایس ایس ملک کو جھلسانے میں مصروف  ہے ـاب  ایم این ایس میں فرقہ واریت گھس گئی ہے لاؤڈسپیکر انڈیا میں شور کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ـ سال کے گیارہ مہینوں میں تو صرف اذان لاؤڈ سپیکرز پر دی جاتی ہے لیکن رمضان کے مہینے میں تو بہت سی مسجدوں سے لاؤڈ سپیکر پر تراویح اور نمازیں بھی نشر کی جاتی ہیں۔ صبح تین بجے سے ہی لاؤڈ سپیکروں سے روزے داروں کو پوری طاقت سے جگانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔اس سے بھی انکار نہیں ـ
مندروں میں صبح ہوتے ہی لاؤڈ سپیکروں پر بھجن کیرتن اور پروچن (وعظ) شروع ہو جاتے ہیں۔ مذہبی مسابقت اور ٹکراؤ کے اس دورمیں لاؤڈ سپیکروں کی آواز اور تعداد بڑھتی گئی ہے۔لاؤ ڈسپیکر اب مذہبی ٹکراؤ اور نفرت کا ایک اہم ذریعہ بن گئے ہیں۔ ان کا استعمال ملک کی اکثریت کے لیے ایک وبال بن گیا ہے۔ آج کی پیچیدہ اور بھاگتی زندگی میں مذاہب اور روحانیت کی اہمیت پہلے سے بڑھ گئی ہے  ـ لیکن عبادتگاہوں میں لاؤڈ سپیکروں کے استعمال نے روحانیت کی پرسکون فضا کو بے پناہ شور سے منتشر کر دیا ہے۔مذاہب امن و محبت کا پیغام دیتے ہیں۔ لاؤڈ ا سپیکروں کی آوازوں کے شور میں یہ پیغام تو کہیں کھو گیا ساتھ ہی آبادیوں کا امن وسکون بھی درہم برہم ہو گیا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مساجد اور دوسری عبادتگاہیں اس حقیقت کو سمجھیں کہ مذہب اور روحانیت کی خدمت لاؤڈ سپیکر کی آواز مدھم کر کے  بہتر طریقے سے انجام دی سکتی ہے۔ اگر لاؤڈ سپیکر سے شہریوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو پھر آواز کم کر دینا  ایک انسانی اور مذہبی فریضہ ہے ـ  کہیں کہیں مسجدوں میں علی الصبح اذان کے علاوہ آدھا گھنہ سے زیادہ کیا کیا خرافات کرتے ہیں پتہ نہیں بلند آواز کر کے کئ لوگ منفی پیغام پہنچاتے ہیں. اذان میں وقت تو پانچ منٹ مشکل سے لگتا ہے.
مسلم کمیونٹی کوجذبات سے مغلوب ہوکر کوئ ایسا فیصلہ نہیں لینا چاہئیے جس سے نفرت وتشدد کی فضاء قائم ہو ـ یہ حقیقت ہے کی ملک کا ماحول زہر آلود بنا دیا گیا ہے ـ کئ ریاستوں میں کھل کر پولس کو اعلیٰ حکام کو ہدایت دی جاتی ہے کی مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کرنے میں مت چوکوں ان کا منو بل مت بڑھنے دو ان کے لئیے  قدم قدم پر مشکلات پیدا کرو،  نفسیاتی خوف میں مبتلاء کرو ـ یوپی کو یوگی وزیر اعلیٰ رہ کر کوئ ایسا قدم نہیں اٹھایا ہے جس کی ستائش کی جائے جہاں جاتا ہے وہاں آگ اور دھواں پھیلاتا ہوا جاتا ہے ـ جس سے جھلسا دینے والے ماحول پیدا ہوجاتے ہیں ـ  افسوس ناک بات یہ ہے کی اگر سیکولر پارٹیاں جو امن وامان قائم کرنے اور تشدد نفرت کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور قانوں کی آئین کی حفاظت چاہتے تو ایسے لوگوں کا فن کچلنا ہوگا. جو زہریلے بیانات سے امن وسکون غارت کرتے ہیں ـ مسلمان اپنے حقوق کی پاسداری کی بات کرتا ہے تو اسے ملک دشمن کہا جاتا ہے. اور اگر یہ حقیقی دہشت گرد ملک کے ساتھ غداری کریں ملک میں خون وخرابہ کریں تو دیش پریمی کہلاتے ہیں ـ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو ملک کمزور ہوجائےگا اور انارکی پھیل جائےگی ـ
ہم نشیمن پر بھی روئیں تو خطا ہوتی ہے ـ
پھونک ڈالیں وہ چمن  بھی تو ہنر ہوتا ہے ـ
مضمون نگار : المصباح ممبئ  کے ایڈیٹر ہیں

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter