دفتری رومانس: دفتر کام کی جگہ یا محبت؟

برائن لفکن بی بی سی

9 مارچ, 2022

دفتر ایک ایسی جگہ ہے جہاں کام تو ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ نجی تعلقات بھی پھلتے پھولتے ہیں اور ایسے میں کسی ساتھی کی محبت میں گرفتار ہو جانا بھی عین ممکن ہے۔

لیکن کورونا کی وبا نے جہاں زندگی کے دیگر معاملات کو متاثر کیا ہے وہیں گھر سے کام کے رواج نے دفتری ماحول بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔

حیران کُن بات یہ ہے کہ عالمی وبا کے باوجود دفتری رومانس پھر بھی قائم و دائم ہے۔ کام کرنے والے اب بھی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو رہے ہیں، چاہے وہ ایک دوسرے کو آمنے سامنے نہیں دیکھ پاتے۔

یہ انکشاف فروری 2022 میں امریکی سوسائٹی برائے ہیومن ریسورس مینیجمنٹ (یو ایس ایچ آر ایم) کے ڈیٹا سے ہوتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران کام گھر سے کرنے کے دوران دفتری رومانس بھی بڑھا ہے۔

اس تحقیق کے دوران 550 امریکی شہریوں سے سوال کیا گیا جس کے جواب میں ایک تہائی نے جواب دیا کہ انھوں نے وبا کے دوران ہی کسی ساتھی سے تعلق کی ابتدا کی۔

وبا سے پہلے 2019 کے اعداد و شمار کی نسبت دفتری رومانس میں یہ تقریبا چھ فیصد اضافہ ہے۔

دفتری رومانس کتنا ناگزیر ہے؟ اس کا ثبوت شاید اسی بات سے ملتا ہے کہ ایک عالمی وبا کے دوران بھی ڈیٹنگ کا راستہ نکال لیا گیا۔

اگرچہ کئی کمپنیاں ملازمین کے درمیان تعلق کو ناپسند کرتی ہیں کیوںکہ یہ اکثر پیچیدہ مسائل کو جنم دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود دفتر ایک ایسی جگہ ہے جہاں محبت اور ہوس دونوں ہی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ دفتر میں تعلقات پنپنے کی کئی مخصوص وجوہات ہیں۔

دفتری رومانس: ایک کہانی، بہت پرانی

دفتری رومانس ممنوع سمجھے جانے کے باوجود یو ایس ایچ آر ایم سروے میں شامل 75 فیصد افراد نے کہا کہ ان کو اس میں کوئی بُری بات نظر نہیں آتی۔ تقریباً نصف نے جواب دیا کہ انھوں نے کام کے دوران کسی ساتھی سے تعلق قائم کرنے کے بارے میں سوچا۔

اب چاہے کمپنیاں کتنا ہی زور لگا لیں، دفتری رومانس کا سلسلہ اگر صدیوں نہیں تو دہائیوں پرانا ضرور ہے۔

ایمی نکول بیکر امریکہ کی نیو ہیون یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور دفتری رومانس پر تحقیق کرتی رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ صنعتی دور کے آغاز سے ہی کام کی جگہ پر تعلقات پر بحث شروع ہو چکی تھی۔

اس زمانے کے نقادوں نے دفتر میں مردوں اور خواتین میں ایک ایسے تعلق کا ذکر کیا ہے جسے اس وقت کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔ یہ سنہ 1800 کے اوائل کی بات ہے جب صنعتی انقلاب نے دفتری کام کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک نئے قبیلے کو جنم دیا جسے ’وائٹ کالر‘ کہا جاتا ہے۔

کئی عاشق ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پہلی ملاقات دفتر میں ہی ہوتی ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس محبت کا انجام کسی سکینڈل کی صورت میں ہی ہو۔ الٹا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس محبت کا انجام دیو مالائی کہانیوں جیسا ہو جن کے آخر میں سب ہنسی خوشی رہتے تھے۔

ایسی ہی ایک مثال سابق امریکی صدر اوباما کی بھی ہے جن کی اپنی اہلیہ مشیل سے ملاقات شکاگو کے لا آفس میں اس وقت ہوئی تھی جب ان کی عمر تیس سال سے بھی کم تھی۔

سنہ 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں تقریبا ہر 10 میں سے ایک جوڑے کے مطابق اُن کی ملاقات دفتر میں ہوئی تھی۔ اب ایسا ہونا اتنا مشکل بھی نہیں کیوںکہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ لوگوں کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے دفترمیں گزرتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 20 سے 50 سال کی عمر کے امریکی شہری اپنے دوستوں کی نسبت کام کے ساتھیوں کے ساتھ چار گنا زیادہ وقت بتاتے ہیں۔

ونیسا بونس امریکی کورنیل یونیورسٹی میں آرگنائزیشنل بیہیویئر کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ دفتر کے لوگوں سے لگاؤ اس لیے حیران کن نہیں کیوںکہ کام یا دفتر ہماری زندگی کا زیادہ سے زیادہ وقت لیتا ہے۔

پرانے زمانے میں دفتری رومانس کیسے ہوتا ہو گا؟ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن آج اور خصوصاً وبا کے زمانے میں سب سے عام طریقہ آن لائن ملاقاتوں کا ہے۔

ایمی نکول بیکر کہتی ہے کہ دفتری محبت کا سلسلہ اعداد و شمار کے مطابق مسلسل جاری ہے اور یہ وبا کے دوران بھی قائم رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ملاقات باس کی آنکھ سے بہت دور ہو سکتی ہے، جہاں دیگر ساتھیوں کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔

یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ وبا کے دوران کئی لوگ اپنے رومانس پارٹنر کے گھر سے کام کرتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں۔

ایمی نکول بیکر کا ماننا ہے کہ کام کے مشترکہ ماحول میں جب تک لوگ ملتے جلتے رہیں گے اس وقت تک بنیادی انسانی کشش کے اصول کارفرما رہیں گے، چاہے وہ ماحول ورچوئل دنیا کا ہی کیوں نہ ہو۔

اسی کشش کے پیچھے کاربند انسانی نفسیات ہی کام کرنے والوں کو ایک دوسرے کی جانب کھینچتی ہے۔

قربت اور واقفیت

ایمی گورڈن امریکہ کی یونیورسٹی آف مشی گن میں نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ دفتر کشش کے دو بنیادی جزو فراہم کرتا ہے۔ کسی کے ساتھ دفتر جیسی جگہ پر کام کرنا اور وقت بتانا رومانس کی بنیاد بن سکتا ہے کیوںکہ قربت اور واقفیت محبت پیدا کرتے ہیں۔

پہلا نکتہ تو یہ ہے جب ہم کسی کو زیادہ سے زیادہ دیکھتے ہیں تو اُن کو چاہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نفسیات کی زبان اس تعصب کو ’ایکسپوژر ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے جس میں کسی کو بار بار دیکھنے سے ہی کشش بڑھ جاتی ہے۔

بلکل اسی طرح دفتری رومانس پر ہونے والی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ کسی کے قریب رہ کر کام کرنے سے بھی اس فرد کے لیے جذبات اور احساسات جنم لے سکتے ہیں کیوںکہ ہم جتنا زیادہ کسی کو قریب سے دیکھتے ہیں اور جتنا زیادہ تعلق ہوتا ہے آپس کے تعلقات بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھتے ہیں۔

یہ تعصب ان باسز پر بھی اتنا ہی اثر انداز ہوتا ہے جن کے ساتھ کوئی کام کرنے والا زیادہ سے زیادہ وقت بتائے۔

بیکر کے مطابق یہ تعصب صرف اور صرف جسمانی قربت تک محدود نہیں ہے۔ یہ جذباتی اور ذہنی قربت بھی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چاہے ای میل ہو، زوم یا کوئی اور ذریعہ، آپ ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں اور یہ مسلسل رابطہ اور تعلق جسمانی قربت سے ماورا ہو کر بھی ترجیحات کو جنم دیتا ہے۔

ایک اور اصول جو دفتری رومانس کی راہ ہموار کرتا ہے وہ یہ بھی ہے کہ لوگ عام طور پر اپنے جیسوں کو ہی پسند کرتے ہیں اور کام کی جگہ سے بہتر ایسی کون سی جگہ ہو گی جہاں ایسے لوگ مل جائیں جنھوں نے اسی پیشے اور اسی کمپنی کا انتخاب کیا۔

بیکر کہتی ہیں کہ ’اگر دو لوگ وکیل ہوں، ایک ہی جیسی تربیت حاصل کی ہو، اور دنیا کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہوں، تو یہ مماثلت ایک دوسرے کو سمجھنے اور پسند کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔‘

یہ کیمسٹری اور بھی بڑھ سکتی ہے اگر دو لوگ ایک ہی مسئلے کو مل کر سلجھانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ طویل پریشان کن حالات میں معاشرتی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔

لیکن بیکر کے مطابق یہی اصول کام کی جگہ پر خصوصا لاگو ہوتا ہے۔ ’عام سے دفتری مسائل کے بارے میں سوچیں۔ وہ چاہے ایک ناپسندیدہ باس ہو، طویل اوقات یا کام کی شدت۔‘

گورڈن کے مطابق ’اگر کبھی پوری رات کام کرنا پڑے یا کسی کلائنٹ سے جھگڑا ہو جائے تو ایسے مشکل حالات سے مل کر نکلنا ایک ایسے جذبے کو جنم دیتا ہے جس میں ہماری سوچ بھی اجتماعی ہو جاتی ہے، اور ہم خود کو اکیلا تصور نہیں کرتے۔‘

دفتری رومانس ہو کر ہی رہے گا؟

کہنے کو تو دفتری رومانس ہونے کے امکانات کافی زیادہ ہیں اور اب یہ رواج بھی عام ہو چکا ہے لیکن کیا ایسا ہو کر ہی رہے گا؟ اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ دفتر میں جنسی ہراسانی کی شکایت کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے جب کہ مفادات کا ٹکراؤ ایک اور معاملہ ہے۔

دوسری جانب دو لوگوں میں رومانس دفتر کے باقی لوگوں کو بے چین کر سکتا ہے جس سے کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔

ونیسا بونس کہتی ہیں کہ جب دو لوگ صرف کام کرنے والے ساتھی نہیں رہتے تو پھر ’یہ سوچنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا رویہ قابل قبول ہو گا اور کون سا نہیں۔‘

لیکن دفتری رومانس ختم ہونے والا تو نہیں۔ ایسے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ چند کمپنیاں اپنے ملازمین کو اس شرط پر ڈیٹنگ کی اجازت دے سکتی ہیں کہ ایسا کرنے سے پیشہ ورانہ اُمور متاثر نہ ہوں۔

جانی ٹیلر ایس ایچ آر ایم کے سی ای او ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بجائے یہ ظاہر کرنے کے کہ ایسا ہوتا ہی نہیں یا ہونا نہیں چاہیے، اس معاملے کو سنبھالنا زیادہ بہتر طریقہ ہے۔‘

ان کے خیال میں دفتری رومانس کرنے والوں کو اپنے تعلق سے کم از کم اپنے مینیجر اور ہیومن ریسورس کو ضرور آگاہ کر دینا چاہیے۔ کئی کمپنیوں میں اب محبت کے کنٹریکٹ کا رواج بھی شروع ہو چکا ہے جس میں لوگ اگر کسی کام کے ساتھی سے تعلق میں ہیں تو ان پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں کمپنی کو آگاہ کر دیں۔

اور اگر آپ خود سے ہی کسی دفتری رومانس کا آغاز کرنے والے ہیں تو آپ کے لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ پہلے اپنے مقاصد اور نتائج کے بارے میں غور کر لیں۔

خصوصاً اگر آپ کی محبت باس یا آپ کے ماتحت کام کرنے والا ہو تو ہیومن ریسورس کو ضرور مطلع کر دیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ایسے کیس میں اپنی کام کی جگہ تبدیل کرنے کی درخواست بھی دے دیں۔

لیکن اگر آپ کسی ساتھی سے تعلق میں ہیں تو پھر بیکر کا ماننا ہے کہ ایسی صورتحال میں یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے کہ آپ اس راز میں کسی کو شریک کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

لیکن ٹیلر کا کہنا ہے کہ ’یہ مت سمجھیں کہ آپ کے دفتر میں کسی اور کو پتہ نہیں چلے گا، کیوں وہ خود ہی پہیلی بوجھ لیں گے۔‘

بیکر کا مشورہ ہے کہ اس راز کو افشاں کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا ماننا ہے کہ ’جب تک اس معاملے کو چھپا کر رکھا جائے گا، دفتر میں باقی لوگ یہ سوچیں گے کہ ان سے کچھ چھپایا جا رہا ہے اور ان کا ردعمل منفی ہو جائے گا۔‘

’ہو سکتا ہے کہ باقی لوگ اس رومانس میں شامل دونوں افراد سے اپنے تعلقات پر از سر نو غور کریں اور سوچیں کہ کس نے کس وقت کیا کہا تھا اور پھر اچانک ان کو شک ہو کہ یہ دونوں ایک ساتھ بزنس ٹرپ پر کیوں گئے تھے۔‘

گورڈن کا کہنا ہے کہ ایسے میں مسئلہ بڑھ سکتا ہے۔

ان تمام تر خدشات، قوانین اور مشکلات کے باوجود دفتری رومانس یا محبت ہو سکتی ہے۔ نفسیات کے اصولوں کو دیکھیں تو دفتر میں کسی کی محبت میں گرفتار ہونے پر کسی کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر کسی کو اس تعلق سے جڑے مضمرات کا بخوبی اندازہ ہو۔

آخر ہر دفتری رومانس کا انجام اوباما کی محبت جیسا نہیں ہوتا اور پھر اگر آپ کی گرل فرینڈ سے دوستی یا تعلق ختم ہو جائے اور وہ پھر بھی اسی دفتر میں آپ کے قریب موجود رہے تو پھر کیسا محسوس ہو گا؟

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter