سعودی عرب اور نیپال کے باہمی تعلقات: ایک جائزہ

عبد الصبور عبد النور الندوي

24 ستمبر, 2021

مملکت سعودی عرب اور نیپال  کے مابین دیرینہ خوشگوار تعلقات رہے ہیں اور دونوں ملکوں نے سیاسی ثقافتی اور تجارتی تعلقات کو پروان چڑھانے کی ہر ممکن کوششیں کی ہیں عالمی تنظیموں و اداروں میں ایک دوسرے کا سپورٹ کرتے دیکھا گیا ہے ہاں عالمی مجلسوں میں کئی بار ایسا ہوا جب نیپال کو غیر جانبدار رہنا پڑا؛ نہ مخالفت کی اور نہ ہی حمایت کی- اس کی ایک خاص وجہ نیپال کا اپنا محل وقوع ہے جو دنیا کے دو بڑے ملکوں چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے – ایسے میں نیپال توازن کی پالیسی اپنا کر دونوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا- نیپال نے سعودی عرب میں رونما حملوں کی ہمیشہ مذمت کی ہے وہیں کئی مواقع پر سعودی عرب کے فیصلوں کا استقبال بھی کیا ہے –

سعودی عرب کی نظر میں نیپالی عمال کی محنت اور ایمانداری قابل قدر رہی ہے اسی لئے سعودی عرب نیپالی لیبرس کو ترجیح دیتا ہے اور بر وقت چھ لاکھ سے زائد نیپالی سعودی عرب میں روزگار سے وابستہ ہیں- نیپال کی خواہش ہے کہ سعودی عرب نیپال میں انویسٹمنٹ کرے اور اس سلسلے میں دو طرفہ سفارتی کوششیں جاری ہیں – ذیل میں دونوں ملکوں کے مابین دوستانہ تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے-

 

سیاسی تعلقات:

نیپال اور مملکت سعودی عرب نے 15 مارچ 1977 کو اپنے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ایک سال بعد نیپال نے 1978 میں سعودی عرب میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا۔ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد نیپال اور سعودی عرب ایک دوسرے کے ساتھ بہترین تعلقات نبھا رہے ہیں۔ دو طرفہ تعلقات پرامن بقائے باہمی ، دوستی اور تعاون کے پانچ اصولوں کی بنیاد پر مستحکم ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ملکوں  نے اقوام متحدہ کے چارٹر اصولوں کے ساتھ اپنے وعدوں اور وفاداری کا اظہار کیا ہے اور بنی نوع انسان کے مشترکہ فائدے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ دیگر بین الاقوامی مجالس اور اسٹیج پر  مل کر کام کیا ہے۔

 

ماضی میں نیپال نے سعودی حکومت سے متواتر درخواست کی کہ وہ نیپال میں جلد اپنا سفارت خانہ کھولے تاکہ تجارت ، سرمایہ کاری اور دیگر ترقیاتی محاذوں پر تعاون کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ بالآخر  سعودی عرب نے ٢٠١٢ میں اپنا سفارت خانہ کٹھمنڈو میں کھولا جس سے نیپالی ورکرز؛ تجار؛ طلبہ اور زائرین کو راحت ملی نیز دشواریاں ختم ہوگئیں؛ ہر طرح کی خدمات سے نیپالی فیضیاب ہونے لگے؛ وہیں سفارت خانے کے قیام سے نیپالی مسلمانوں کو حج بیت اللہ کے لئے سہولتیں حاصل ہوئیں نیز سفارت خانے کے تعاون سے حجاج کے کوٹے میں قابل قدر اضافہ بھی ہوا-

 

دو طرفہ دورے:

 

نیپال سے :

-سابق بادشاہ گیانندر شاہ  نے 1983 میں شہزادہ کی حیثیت سے سرکاری دورے پر سعودی عرب کا دورہ کیا۔

-آنجہانی بادشاہ بیریندر وکرم شاہ اور آنجہانی ملکہ ایشوریہ نے بھی 1983 میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔

-سابق وزیر محنت جناب بل بہادر کے سی 1999 میں سعودی عرب کا سرکاری دورہ  کیا۔

-عراق میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 12 نیپالی شہریوں کے قتل کے بعد 2004 میں اس وقت کے وزیر اطلاعات و مواصلات ڈاکٹر محمد محسن کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ وفد میں اس وقت کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ ڈاکٹر پرکاش شرن مہت اور اس وقت کے وزیر مملکت برائے لیبر اور ٹرانسپورٹ مینجمنٹ مسٹر اربا دت پنت شامل تھے- دورے کا مقصد ملک نیپال میں مسلمانوں پر ہوئے مظالم سے نیپال کی خراب شبیہ کو میک اپ کرنا تھا-

– نیپالی راجہ گیانندر شاہ کی نمائندگی کرتے ہوئے سابق ولی عہد شہزادہ پارس نے اگست 2005 میں خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود کے انتقال پر ملال پر تعزیت کا اظہار کرنے کے لیے ریاض کا دورہ کیا۔

– دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی دوروں نے تعلقات کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

سعودی عرب سے:

-شہزادہ الولید بن طلال بن عبدالعزیز آل سعود نے نومبر 2010 میں نیپال کا دورہ کیا۔

-سعودی اعلیٰ سطحی وفد 24 دسمبر 2011 کو اپنے تین روزہ سرکاری دورے پر کٹھمنڈو پہنچا۔

ترقیاتی تعاون:

نیپال نے سعودی ترقیاتی فنڈ  سے کئی ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس بشمول مارسیانگدی پروجیکٹ کے لیے قرض کی امداد حاصل کی تھی۔ نیپال کی ایسٹ ویسٹ ہائی وے کی تعمیر میں سعودی ترقیاتی فنڈ کی طرف سے بھی خاطر خواہ شراکت موجود تھی۔ اس وقت باگمتی ون  اور ٹو آبپاشی پروجیکٹ میں بھی سعودی عرب کا تعاون شامل تھا ۔

سعودی ترقیاتی فنڈ نے مختلف پروجیکٹ کے لیے (565) ملین سعودی ریال بطور قرض دیئے ہیں –

اقتصادی تعاون:

دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون 1978 میں شروع ہوا جب نیپال نے سعودی عرب کے جدہ میں اپنا قونصل خانہ کھولا۔ سعودی حکومت کی طرف سے بڑھایا گیا معاشی تعاون بنیادی طور پر کمیونٹی کی بہتری، زرعی ترقی اور ہنگامی امداد پر مرکوز رہا ہے۔

تجارت اور کاروبار:

دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کا بہت بڑا امکان موجود ہے۔ تجارت اور سیاحت کے فروغ  کے لئے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب تیل اور معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور نیپال اس شعبے میں تعاون کے ممکنہ راستے تلاش کرسکتا ہے۔ نیپال اور سعودی عرب کے درمیان تجارت سعودی عرب کے حق میں رہی ہے۔

نیپال نے اب تک 4.69 ملین  ڈالر کی اشیاء سعودی عرب کو ایکسپورٹ کی ہیں۔ اشیاء میں ہینڈ بیگ ، قالین ، سی ڈی کیسٹ ، اور اونی شال شامل ہیں۔ جب کہ  نیپال نے سعودی عرب سے  تقریبا 9.11 ملین ڈالر کی اشیاء درآمد کیں۔ اہم درآمد شدہ اشیاء پلاسٹک ، معدنی ایندھن اور تیل ، ایلومینیم ، فرش کورنگ ٹیکسٹائل اور تانبا تھیں۔

دونوں ممالک کے درمیان اب تک  کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔

سیاحت:

نیپال سعودی عرب تعلقات کی ترقی میں سیاحت ممکنہ شعبوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ موسم گرما کے دوران بیرون ملک جانے والے سعودی باشندوں کے لئے نیپال ایک سیاحتی منزل بن سکتا ہے۔ اس کے لئے نیپال اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست پروازیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمالین ایئر لائنس ریاض اور دمام کے لئے ڈائرکٹ پروازیں چلا رہی ہے وہیں سعودی ایئر لائنس کو بھی نیپال کے بھیرہوا ؛ کٹھمنڈو اور پوکھرا کے لئے راست پروازوں کا اہتمام کرنا ہوگا جس سے دونوں ممالک کی معیشت پروان چڑھے گی-

نیپال وہ ملک ہے جہاں دنیا کی بلند ترین چوٹی (ایورسٹ) واقع ہے جو سطح سمندر سے ٨٨٤٩ میٹر بلند ہے۔ نیپال میں ایورسٹ کی چڑھائی اور ٹریکنگ سب سے زیادہ پرکشش مانی جاتی ہے، ایورسٹ کا خطہ نیپال کے شمال مشرق میں واقع ایک خوبصورت دنیا ہے جس میں وسیع گلیشیر ، آبشار ، بلند ترین پہاڑ ، گہری وادیاں ، خطرناک پگڈنڈیاں اور بلندی سے چلنے والی من موہنی ہوا الگ دنیا کا احساس کراتی ہے ، دوسری جانب دنیا کی سب سے اونچی تیلیچو جھیل کا سفر ایک خوبصورت احساس کی عکاس ہے۔ ضلع منانگ میں واقع یہ جھیل نیپال کے بہترین ٹریکس میں سے ایک ہے۔ جھیل شاندار ہمالیائی کنڈلیوں میں برفانی عملیات سے بنتی ہے اس لیے کوہ پیمائی اور دیگر قسم کی ایڈونچر سیاحت زائرین کو راغب کرنے کے لیے اہم عوامل ہیں۔ جس سے سعودی شہریوں کو راغب کیا جاسکتا ہے –

سعودی عرب بھی سیاحتی ویزہ کو نرم بنا کر حرمین شریفین کے علاوہ العلا حائل ابھا جازان خیبر و دیگر تاریخی مقامات کی زیارت کے لئے نیپالی سیاحوں کو راغب کر سکتا ہے- اس لئے کہ نیپالیوں کو گھومنے کا شوق خوب ہے-

 

زراعت:

سعودی عرب مارکیٹوں کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے مختلف ممالک سے زرعی استعمال کی اشیاء درآمد کر رہا ہے۔ نامیاتی زرعی مصنوعات کی پیداوار اور برآمد نیپال- سعودی عرب تعلقات کی ترقی کے ممکنہ شعبوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ نیپال میں نامیاتی مصنوعات کے لیے زرخیز زمین اور مناسب آب و ہوا سعودی سرمایہ کاروں کے لیے مشترکہ منصوبے کے پرکشش علاقوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ اس شعبے میں ممکنہ سعودی سرمایہ کاری کو بنیادی طور پر سائنسی اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے متحرک کیا جا سکتا ہے۔

 

ثقافتی تعاون:

ہر سال نیپالی مسلمان بڑی تعداد میں حج بیت اللہ کے لئے جاتے ہیں ۔  نیپال کی حکومت مسلم کمیونٹی کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے تاکہ نیپالی مسلمان بغیر کسی رکاوٹ کے زیارت کر سکیں۔ وہیں سعودی حکومت کی جانب سے نیپالی عازمین کو ملنے والا تعاون بھی قابل قدر ہے اور اس نے دونوں ممالک اور عوام کے درمیان موجود دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چونکہ آنے والے سالوں میں عازمین حج کی تعداد میں کافی اضافہ متوقع ہے ، اس لیے سعودی حکام کے ساتھ ہم آہنگی میں ایک عملی نقطہ نظر ہونا چاہیے تاکہ حج کو مزید آسان بنایا جا سکے۔

سعودی عرب نے گزشتہ ۵۰ سالوں سے اپنی یونیورسٹیوں میں نیپالی مسلمان طلبہ کو اسکالر شپ پر مسلسل داخلہ دے کر مسلمانان  نیپال پر عظیم احسان کیا ہے اب تک ۸۰۰ سے زائد نیپالی بیچلر ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لے  کر نیپال لوٹے ہیں- جن کا نیپالی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار رہا ہے-  دوسری جانب سعودی اسلامک منسٹری ایک درجن سے زائد دعاۃ کی کفالت بھی کر رہا ہے  –

نیپال میں مساجد مدارس کی تعمیر و ترقی اور دیگر رفاہی امور  میں سعودی اداروں و شخصیات کا اہم رول رہا ہے –

جب 2015 میں نیپال میں تباہ کن زلزلہ آیا اس موقع پر مملکت سعودی عرب نے آٹھ طیاروں کا ایک امدادی بیڑا نیپال بھیجا جس میں 190 ٹن سے زیادہ مختلف انسانی امدادی اشیا تھیں۔

سعودی عرب اور نیپال کے مابین مشترکہ کمیٹیاں:

سعودی نیپال پارلیمانی دوستی کمیٹی:

شوریٰ کونسل میں سعودی نیپال پارلیمانی دوستی کمیٹی جس کی سربراہی کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین جناب اسامہ الربیعہ نے 5 مارچ 2020 کو وفاقی جمہوریہ نیپال کے پارلیمانی وفد سے کی۔  وفد کی سربراہی پارلیمنٹ کی تجارت اور مزدور کمیٹی کے چیئرمین بمل پرساد شریواستوا نے کی۔

میٹنگ کے آغاز میں ، جناب اسامہ الربیعہ نے وفاقی جمہوریہ نیپال میں پارلیمنٹ کے وفد کو خوش آمدید کہا ، شوری کونسل اور نیپالی پارلیمنٹ کے درمیان پارلیمانی تعلقات کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ بمل پرساد شریواستوا نے زور دیا کہ مملکت سعودی عرب اور وفاقی جمہوریہ نیپال کے مابین تعلقات مسلسل پروان رہے ہیں ، مملکت کی کوششوں کو سراہتے ہیں اور مختلف سطحوں پر اپنے ملک کی حمایت کرنے کی مسلسل کوشش کی ستائش کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ دلچسپی کے کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

معاہدے:

دونوں ممالک کے درمیان کئی معاہدے التوا کا شکار ہیں جس میں لیبر معاہدہ؛ خادمات معاہدہ قابل ذکر ہیں- اور اب تک کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے-

سعودی عرب میں نیپالی کمیونٹی:

دو دہائی قبل سعودی عرب میں نیپالی مزدوروں کی آمد کے بعد دونوں ملکوں کے عوامی تعلقات مستحکم ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں کام کرنے والے نیپالیوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ مختلف سماجی ، جغرافیائی اور مذہبی نیز ثقافتی ماحول سے آنے کے باوجود ، نیپالیوں کو سعودی عوام نے ان کے کام ، وفاداری ، خلوص اور دیانت کے ساتھ لگن کی وجہ سے خوش آمدید کہا ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے جاری ترقیاتی کاموں کے سبب سعودی عرب میں روزگار کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ تاہم ، نیپالی تارکین وطن کو مناسب اور تیز قانونی تحفظ کے فقدان کی وجہ سے مختلف مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے –

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter