مظلوم رنڈوا مرد اوربیوہ عورتیں رسوائى کی خاک اوڑھے رہ گزر په بیٹھی ہیں

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل

20 جولائی, 2020

رنڈوا وہ آدمی ہے جس کی بیوی انتقال کر گئ ہے اور بیوہ اس عورت کو کہا جاتا ہے جس کاشوہر وفات پاچکا ہے.
آج کے اس ترقی وتعلیم یافتہ دور میں بھی رنڈوا مرداور بیوہ عورتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہوتا ہے وہ مہذب معاشرے پر بد نما داغ ہے.ان کے ساتھ مختلف انداز سے پیش آیا جاتا ہے.رنڈوا کی شادی اور بیوہ کا نکاح آج بھی جاہلیت کی طرح معیوب سمجھا جاتا ہے.بیوہ کے حسن وجمال سے سب کھیلنا چاہتے ہیں لیکن اسے اپنانے کے لئیے کوئ تیار نہیں ہوتا. بیوہ گھٹ گھٹ کر ایک ایک پل جس اذیت واضطراب تکلیف وپریشانی میں گزارتی ہے وہ ناقابل بیان ہے.
الطاف حسین حالی صاحب نے بیوہ کے درد وکرب کو اس انداز میں پیش کیا ہےجیسے ان پر ہی غم والم کے لمحات بیتے ہوں. حالی نے "مناجات بیوہ ” لکھ کر بد نصیب بیوہ عورتوں کے احسا سات وجذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے "مناجات بیوہ ” کا بارہ زبانوں سے زیادہ ترجمہ ہوچکا ہے.
بیوہ عورت کی بے کسی بے بسی کا اظہار بہت سارے شعراء نے کیا ہے.
ہماری زندگی بیوہ دلہن بھیگی ہوئ لکڑی.
جلیں گے چپکے چپکے سب دھواں کوئ نہیں دے گا. ظفر (گورکھپوری)
کہ سچ کچل دیا بیوہ کی حسرتوں کی طرح.
کہ جھوٹ ہاتھ میں کنگن ہے کیا کیا جائے.(منیر ارمان)
کسی بیوہ کے دل سے یی حقیقت پوچھئے جاکر.
کہ بچوں کو جواں کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے. (ایاز طالب)
ساری امیدیں مجھ کو بیوہ لگتیں.
لگتا ہے سارے جگ میں اندھیارا ہے. (منتظر)
بیوہ کی جوانی آفت جاں ہے.
جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب.
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں.(مجاز لکھنوی) بیوہ عورت کی کا نکاح عدت کی مدت ختم ہوتے ہی کر دینا چاہئے تاکہ زمانے کی طعن وتشنع سے محفوظ رہ سکے. غموں کا پہاڑ جو اس پر ٹوٹا ہے وہ ہلکا ہو سکے.

پوری دنیا میں بیوہ عورتوں کی تعداد کروڑوں میں ہے.
ہندستان میں بیوہ مطلقہ عورتوں کی تعداد بارہ فیصد سے زیادہ ہے جنہیں اپنے ہی خاندان کے ظلم وستم اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے. پاکستان میں چالس لاکھ بیوہ عورتیں پائ جاتی ہیں. جو لاچاری مجبوری میں زندگی بسر کر رہی ہیں.
امریکہ میں تین 3کروڑ عورتیں بغیر شوہر کے رہ رہی ہیں.
ڈھائ کروڑ 2/50 کروڑ مرد ہم جنس پرست Gay ہیں. اس طرح چالس 40لاکھ برطانیہ میں پچاس50 لاکھ جرمنی میں اور نوے90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہیں جنہیں بغیر شوہر کے رہنا پڑ رہا ہے.

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر روز ایک سو سینتس137 خواتین شوہر یا خاندان کے ارکان کے ذریعہ قتل کر دی جاتی ہیں.دوہزار سترہ2017 کی رپورٹ کے مطابق ستاسی 87 ہزار خواتین کا جو قتل ہوا نصف سے زیادہ قتل ان کے قریبی رشتے داروں کے ہا تھوں ہوا ہے. عورتوں پر ظلم وزیادتی مختلف انداز سے ہوتی ہے. بیوہ عورتیں کم سن بچیاں کالجز یونیورسٹیوں کی طالبات ہوس کے پجاریوں اور جنسی درندوں کی شکار ہوتی رہتی ہیں.
نیشنل یونین آف اسٹوڈنٹس
National union of) Students).
نے ایک رپورٹ شائع کی ہے. اکتالس 41 فیصد طلبہ وطالبات نے اداروں کی جانب سے ہراساں کئے جانے کا اعتراف کیا ہے جس میں ذدو کوب اور جنسی ہوس کی تکمیل بھی شامل ہے . برطانوی یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسانی کم عمر نوجوانوں کے علاوہ اعلیٰ تعلیم یافتہ میں بھی پایا جاتا ہے. پینتس 35فیصد طالبات نے بیان میں کہا کی جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں ان کی مرضی کے خلاف ان سے جسمانی تعلق قائم کیا گیا.افسوس وشرمناک بات ہے کہ یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ ایشیائ ممالک بھی اس گندگی میں لت پت ہیں.
بہت بڑا المیہ ہے کہ تعلیمی ادارے بھی محفو ظ نہیں ہیں.
آج دنیا میں جو بد امنی، جنسی آوارگی،فحاشی، برائیاں پھیلی ہوئ ہیں اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کی لاکھوں کی تعداد میں ایسی بیوائیں موجود ہیں جو جنسی اعتبار سے ناآسودہ ہیں.
کبھی یہ جسم فروشوں کے چنگل میں پھنس کر بار گرل(Bar Girl) کال گرل(Call Girl) بن کر فحاشی کے فروغ کا ذریعہ بن جاتی ہیں. کبھی یہ فطری جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لئیے خاموشی سے زنا کا مرتک ہوجاتی ہیں. کبھی یہ جنسی خواہش کی تکمیل کے لئیے ناجائز راستہ ڈھو نڈھ لیتی ہیں. کبھی یہ فطری جنسی خواہش کو غیر فطری طریقے سے دبا لینے کے نتیجے میں پاگل پن سمیت جیسے جسمانی ونفسیاتی بیماریوں میں مبتلاء ہوجاتی ہیں. کبھی یہ جنسی ہوس کے پجاریوں کی شکار بن جاتی ہیں.
پورے معاشرے کو اس کازبردست نقصان ہو تا ہے خاندان گھر کے لئے موجب ندامت وشرمندی ہوتی ہیں.
بہت بڑی تعداد میں مرد بھی ایسے ہیں جن کی بیویاں فوت ہو چکی ہیں ان  کےعقد ثانی کو بھی عیب سمجھا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل ( تسکین) کے لئیے ان کے پاس حرام کاری زنا کاری کے علاوہ کوئ اور راستہ نہیں بچتا.ایک عجیب وغریب رجحان ہمارے معاشرے میں یہ ہے کہ اگر کسی عورت کے غیر مرد سے ناجائز تعلقات ہیں تو اس عورت کا عملا بائیکاٹ کردیا جاتا ہے.لیکن اگر کوئ مرد اس طرح کی حرکت کرتا ہے تو اس کی باز پرس اس طریقے سے نہیں ہوتی ہے.
اگر کوئ مرد ا یک سے زائد شادی کرنا چاہے تو اسکی یہ کہ کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے. اور یہ کہا جاتا ہے کہ اگر جنسی خواہش زور پکڑ رہی ہے تو ہمبستر ی کر کے چھوڑ دو نکاح کر کے زندگی بھر کے لئیے گلے میں گھنٹی باندھنے کی کیا ضرورت ہے.
اپنے طرز عمل سے گفتار سے ہمارا معاشرہ نکاح کی حوصلہ شکنی اور حرام کاری کی حوصلہ افزائ کرتا ہے.
ہمارا مسلم معاشرہ بھی اس سے پیچھے نہیں ہے کتنے لوگ ایسے ہیں جو دوسری شادی کے لئیے تڑپ رہے ہیں بیوی بیمار ہے حق زوجیت ادا کرنے سے معزور ہے. لیکن سماج ڈھال بن کر سامنے آجاتا ہے اور طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے.

کتنے مرد ایسے ہیں جن کی بیویاں فوت ہو چکی ہیں لیکن وہ شادی کر نے کے تصور سے ہی گھبراتے ہیں. جب کہ توانا وتندرست ہیں حق زوجیت ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں. لیکن یہ معاشرہ یہ کہ کر انہیں خاموش کر دیتا ہے کہ آپ کی عمر چالس بچاس سال کی ہے. آپ کے بچے بچیاں ہیں ان کا منہ دیکھر زندگی گزار لو. دوسری شادی کرنے سے بڑے مسائل پیدا ہوں گے دوسری ماں آئےگی سوتیلاپن دکھائے گی اور خوشحال گھر تباہ ہوجائےگا.بچوں کا مستقبل تاریک ہوجائےگا بچوں کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے.
تعدد ازدواج عورتوں پر رحمت ہے اگر کوئ شخص نان ونفقہ کی حق زوجیت کی طاقت رکھتا ہو تو دوسری شادی کرنے سے منع کرنا نہیں چاہئیے. ایک عورت دوسری عورت کی مدد کے لئیے آگے آئے تاکی معاشرے میں پنپ رہی برائیوں کا خاتمہ ہو سکے بیواؤں کا نکاح کرنے کا رواج عام کیا جائے.دوسری شادی محض جنسی تسکین کے لئیے نہ ہو .دوسری تیسری چوتھی شادی جسمانی تعلق ہی قائم کرنا ہو اور نان ونفقہ اوردوسری ذمہ داریوں ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو نیت میں فتور ہو تو ایسی شادی کرنا قابل مزمت اور بہت بڑا جرم ہے.
سورہ نساء میں اللہ فرماتا ہے.
ان محرم عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئیے حلال کی گئ ہیں تاکہ اپنے مال کی مہر سے تم انہیں حاصل کرو  بشر طیکہ اسے تمہارامقصد نکاح میں لانا ہو،محض شہوت رانی نہ هو.
ہندو بیوہ عورتوں کے ساتھ سلوک نہایت ہی ظالمانہ ووحشیانہ تھا. جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو عورت کو بھی اسی چتا میں جلا دیا جاتا تھا اوراسے "ستی” کامقدس پوتر نام دیا جاتا تھا.”ستی” چتا میں بیوہ کو آگ کی نزر کرنے کا رسم. ہندوؤں میں رواج کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی.ہزاروں ہندو عورتوں کو ستی ہونا پڑا.
راجہ رام موہن رائے اپنے بھا ئ کی بیوہ کو بھی ستی ہونے سے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے. جب چتا میں بیوہ کو ڈالا گیا تو شعلوں کو برداشت نہ کر سکی اور باہر نکلنے کی کوشش کہ اور چیخنے چلانے لگی لیکن پانڈؤؤں نے اسے لاٹھی اور بانس سے اندر ڈھکیل دیا اور زورزور سے برتنوں کو بجانے لگے تاکی بیوہ کی چیخ وپکار کی آواز دب جائے.
موہن رائے نے تو ستی کی رسم کو ختم کرنے کی تحریک چلائ علماء نے بھی ان کا ساتھ دیا. موہن راءے تو ستی کو روک لے گئے لیکن اللہ ورسول کی تعلیمات پر عمل کرنے والی قوم کا "بیوہ” کے ساتھ سلوک آج بھی ستی کی رسم جیسا ہے ستی میں تو چتا کےساتھ بیوہ ایک بار جل جاتی ہے.لیکن مسلم.سماج کی بیوائیں روز روز جلتی ہیں. انہیں سماج روز زندہ درگور کرتا ہے وہ زندہ رہ کر بھی مری ہوئ رہتی ہیں.کتنی بیوائیں اندر اندر گھٹ گھٹ کر جی رہی ہیں زندہ لاش کی طرح. شاید ستی کی رسم مسلمان اپنے کرداروعمل سے ادا کر رہے ہیں. اگر ایسا نہیں ہے تو قوم کے علماء ذمہ داران حضرات آگے بڑھیں اور بیوہ سے نکاح کریں اور اس چلن کو عام بھی کریں .ہندوانہ رسم ورواج کے غلبے کو ختم کریں . اس پر آشوب وفتنے کے دور میں بیوہ کی شادی کرنا سب بڑا ثواب کا کام ہے. صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئیے یہ قد م اٹھانا انتہائ ضروری ہے.
چند اہم تجاویز
اگر کسی شوہر کی بیوی یا بیوی کا شوہر وفات پاجاتاہے تو عدت کی مدت پوری کرنے کے بعد اور صدمے کے ماحول سے باہر نکلنے کے بعدفورا مناسب رشتے کی تلاش شروع کر دی جائےاور مرد ہو یا عورت اس کو دوبارہ رشتہء ازدواج میں منسلک کر دیا جائے.اس سے عورتوں کو بھی سہارا ملے گااور مردوں کو بھی.اگر بچے نو عمر ہیں تو ان کے یتیم ولاوارث ہونے کی نوبت نہیں آئے گی.
بیوہ یا مطلقہ لڑکیاں ماں باپ یا بھائ بہنوں پر بوجھ نہیں بنیں گے ان کا اپنا نیا گھر ہوگا جہاں وہ عزت وقار کے ساتھ زندگی گزار سکے گی.
دوسرا یہ کی ائمہ کرام ومقررین حضرات جمعہ کے خطبے میں اور جلسوں ودروس میں مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ بیواؤں اور مطلقہ خواتین کے عقد ثانی کی تلقین کریں. مختلف مسالک کی وہ دہنی جماعتیں جنہوں نے اپنے اراکین کو دین کی دعوت وتبلیغ واشاعت کے لئیےوقف کر رکھا ہےان کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی بیواؤں ومطلقہ خواتین سے نکاح کریں اور معاشرے کے سامنے ایک مثال ہیش کریں.
یتیم وبے سہارا غریب لڑکیوں کے اجتماعی نکاح کی خبریں تو اکثر آتی رہتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس شعبے میں سرگرم تنظیمیں افراد اور ادارے مطلقہ وبیوہ عورتوں کے اجتماعی نکاح کی تقریب بھی وقتا فوقتا بھی منعقد کرتے رہیں تاکی معاشرے میں ہم آہنگی پیدا ہو.اور بیوہ عورتوں کا گھر بس سکے ان کی کفالت بھی ہو سکے.
یہ مصنوعی دیواریں بھی ڈھا دینی چاہئے کہ اگر لڑکی کنواری ہے تو لڑکا بھی کنوارا ہو. دوسرے یہ کہ لڑکے کی عمر زیادہ لڑکی کی عمر کم ہو نی چاہئیے یہ قطعی غیر فطری غیر سائنٹفک ہے.
یہ معاشرتی زنجیریں ہیں جنکی وجہ سے پورے معاشرے میں گھٹن پھیلی ہوئ ہے اور پورا سماج جاہلانہ رسم ورواج کا حامی بن چکا ہے اس دیوار کو ڈھانا ہوگا.
امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے عملی طور پر ان زنجیروں کو توڑ کر پوری انسانیت پر احسان عظیم کیا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا نکاح پچیس 25 سال عمر میں چالس 40 سال کی بیوہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا سے کیا تھا.امہات المومنین دو کو چھوڑ کر بیوائیں مطلقہ اور زیادہ عمر والیاں تھیں.
موجودہ معاشرے میں کفر وشرک سمجھا جاتا ہے کہ کنوراہ لڑکا کسی مطلقہ یا بیوہ سے شادی کر لے یا کنواری لڑکی کسی ایسے مرد سے نکاح کر لے جس کی بیوی فوت ہوچکی ہو یا طلاق لے چکی ہو.جب کہ یہ جاہلانہ رسم وراوج ہے جھوٹی انا وبرتری کا مسلہ بنا ہوا ہے.اگر لڑکی لڑکے میں ہم آہنگی ہے تو عمر ذات پات علاقہ وزبان تعلیمی مالی سماجی وخاندانی حیثیت کسی بھی چیز کو آڑے نہیں آنا چاہئیے.
آج کل یہ چلن بھی عام ہے کی کنواری لڑکیوں کی شادی بہت تاخیر سے کی جاتی ہے.اگر کئ عورت بیوہ ہوجائے تو اسے دوبارہ نکاح کو معیوب سمجھا جاتا ہے. بے چاری بیوہ پوری زندگی اپنے جذبات وخواہشات کو کچلنے پر مجبور ہو جاتی ہے.حسرت والم میں شب وروز گزارتی ہے.
جب کہ اسلام نے تمام جاہلی رسم رواج کو ختم کر دیا ہے لیکن افسوس مسلمان جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اورسنت رسول کا دم بھرتے ہیں وہ بھی ان جاہلی ر سم ورواج کے شکار ہیں. بیواؤں کے نکاح سے متعلق بات کرنا سماجی طور پر جرم سمجھا جاتا ہے.
جب مذہب اسلام نے ان دیواروں کو منہدم کردیا تھا تو پھر سے ان دہواروں کو کھڑا کرنے اور ان زنجیروں میں دوبارہ جکڑنے کا کیا جواز ہے.جو قیامت تک کے لئیے توڑ دی گئ ہے.faisalkhan98923@gmail.com
9892375177

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter