*صوم كے مختصر فضائل واحكام*

شمیم عرفانی / اسلامک دعوہ سینٹر عفیف

26 اپریل, 2020
رمضان المبارك كا مہینہ اللہ ذو المنن کی طرف سے اس کے اہل ايمان بندوں کیلئے ایک ایسا بیش قيمت اور گراں قدر انمول عطيہ ہے جو ربانی فيوض وبركات اور الہی نعمتوں کا سراپا مرقع اور مختلف النوع عبادتوں کا ایک عالمی موسم بہار ہے جس كے ایمان افروز اور روح پرور ليل ونہار سے نیاز مندان راه وفا بندوں کے دلوں کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک نصيب ہوتی ہے اس لئے سب سے پہلے اس حسين اور پر بہار موقع پر خير وبركت سے معمور اس ماه محترم كی مبارك آمد كی مناسبت سے میں اپنے تمام قارئين كرام اور جملہ برادران اسلام كو صميم قلب كے ساتھ تہنئت اور مباركباد پیش كرتا ہوں بعد ازآں، درج ذيل سطور میں اس مهتم بالشان ماه رمضان المبارك کی اہمیت وعظمت كے پیش نظر اس کے فضائل واحكام سے متعلق چند اہم امور پر مشتمل ايك مختصر خاكہ پیش كرنے کی سعادت حاصل كر رہا ہوں جو فضيلة الشيخ ابن عثيمين رحمة الله عليہ كے بعض خطبوں سے زلہ ربائی کا ثمرہ ہے ممکن ہے قارئين كرام میں سے کسی بھائی كے لئے يہ مفيد اور كار آمد ثابت ہو – رب لم يزل ولا يزال سے دعا ہے کہ وه اپنی ذات گرم گستر سے ہم تمام اہل اسلام كے لئے اس کو باعث خير وبركت بنائے نيز اسے ہمارے لئے دين ودنيا میں كامیابی اور سعادت كا سبب اور ذريعہ بنا كر ہمیں ليلائے كامرانی سے شادكام فرمائے – آمين

رمضان المبارك كے فضائل :
= اس ماه مبارک میں اللہ تبارك وتعالى كی مهتم بالشان اور مقدس ترين كتاب قران كريم كا نزول ہوا ہے – الله تعالى نے ارشاد فرمايا : {إنا أنزلناه في ليلة القدر} (سورة القدر) ترجمہ : ہم نے اس ( كتاب ) كو شب قدر میں نازل كی ہے _
= اللہ كے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ” جب رمضان شريف كا مہینہ داخل ہوتا ہے تو آسمان كے تمام دروازے كھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم كے تمام دروازے بند كردیئے جاتے ہیں اور شيطانوں كو قيد كرديا جاتا ہے _ (متفق عليه)
☆ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”صوم(روزہ)اور قرآن،قیامت کے دن بندہ کے لئے شفاعت کریں گے صوم کہے گا:اے میرے رب میں نے اس کو دن کے اوقات میں کھانے اور تمام شہوانی لذتوں کی تکمیل سے روک دیا تھا پس اس کے بارے میں میری شفاعت (سفارش) کو قبول فرما۔”(صحیح رواہ احمدوغیرہ)۔
روزہ کے آداب اور اس کی سنتیں
☆سحری کھانا :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے "سحری کھاؤ کیوں کہ سحری میں خیر و برکت ہے_(متفق علیہ)۔
☆افطاری کرنا : چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "لوگ ہمیشہ خیرو برکت میں رہیں گے جب تک افطار کرنے میں عجلت اور جلدی کریں گے ” اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاة (نماز) سے پہلے رطب یعنی گادہ کھجوروں سے افطار فرمائے،اگر رطب نہ ہوتا تو چند عدد کھجوروں سے اگر وہ بھی نہ ہوتا تو پانی کے چند لپوں سے افطار فرماتے۔(صحیح،رواہ الترمذی)
کثرت سے دعاؤں کا اہتمام کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:” تین قسم کے لوگوں کی دعا کبھی رد نہی ہوتی،افطاری کرتے وقت روزہ دار کی دعا ،منصف اور عادل امام کی دعا اور مظلوم شخص کی دعا _'(صحیح رواہ الترمذی )۔
☆ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار سے فارغ ہوجاتے تو فرماتے :_” ذهب الظماء وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله تعالى”(حسن رواه الترمذي).
ان لوگوں کیلئے صوم(روزہ )توڑنا جائز ہے :
مریض اور مسافر شخص کیلئے :
البتہ بعد میں ان دونوں پر قضاء ضروری ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے _” فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر ” (سورة البقرة ) ترجمہ:_جو تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی مکمل کرے _” لیکن ایسا مریض جس کی شفایابی کی کوئی امید نہ ہو تو اس کی طرف سے روزآنہ ہر روزہ کے عوض میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا مشروع ہے _

حیض اور نفاس والی عورتوں کیلئیے:
ان دو قسم کی عورتوں پر بھی بعد میں ان ایام کی۔قضاء ضروری ہے کیوں کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ کی متفق علیہ روایت ہے :ہمین روزہ کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا _ (متفق علیہ)۔

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کیلئیے:
بشرطیکہ انہیں اپنے نفس پر یا بچوں پر کوئی خوف اور اندیشہ لاحق ہو تو ایسے حالات میں ان کے لئے مشروع فدیہ ادا کرنا ہے _چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک دودھ پلانے والی یا حمل والی عورت کو دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :”تو ان لوگوں میں سے ہے جو روزہ کی طاقت نہی رکھتے ہیں اس لئے تجھ پر فدیہ (ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا )ہے اور تجھ پر قضا بھی ہے _” (صحيح رواه الدار قطني)۔

اس بوڑھے مرد اور بوڑھی خاتون کیلئے :
جو روزہ کی طاقت نہی رکھتے،ان پر بھی ایک مسکین کو ہر دن صوم کے بدلے میں کھانا کھلانا ہے _

روزہ کو توڑ دینے والے امور:
یہ أمور دو طرح کے ہیں :
(اولا) جو روزه كو توڑ دیتے اور صرف قضا کو واجب کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(1) جان بوجھ کر کھانا پینا اور سگریٹ نوشی وغیرہ کرنا (ایسے شخص پر فورا توبہ کرنا بھی واجب ہے)۔
(2)عمدا قے کرنا (الٹی کرنا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :اور جس نے قے کیا اس پر قضا واجب ہے _(صحيح رواه الحاكم وغيره )
(3)حيض _ماہواري سسٹم _اور نفاس کے خون کا پایا جانا اگر چہ سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی کیوں نہ شروع ہوا ہو_
(ثانيا) دوسرے ون أمور جو صوم كو توڑ دیتے ہیں اور قضا اور کفارہ دونوں کو واجب کردیتے ہیں _
جمہور علماء كے نزديک صرف جماع (بیوی کے ساتھ مجامعت اور ہمبستری کرنا )ہے اس کا کفارہ گردن آزاد کرنا ہے اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل دو مہینے کا روزہ رکھنا اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے_(اور بعض علماء نے کفارہ میں اس ترتیب کی شرط نہی لگائی ہے)_
وہ امور جس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا :
☆بھول چوک سے ،غلطی سے یا حد درجہ مجبوری یا کسی دباؤ کے نتیجہ میں کھا یا پی لینے سے روزہ فاسد نہی ہوتا چنانچہ ایسے شخص پر قضا ہے نہ کفارہ _کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(1) جو شخص بھول گیا کہ وہ روزے دار ہے اور اس نے کھا یا پی لیا تو وہ اپنے روزہ کو مکمل کرے
_(یعنی اسے برقرار رکھے) کیوں کہ اسے اللہ تعالی نے کھلایااور پلایا ہے_(متفق علیہ)۔
(2)اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”بیشک اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی ،بھول چوک اور مجبوریوں کے عالم میں کئے گئے گناہ کو معاف کردیا ہے_(صحيح رواه الحاكم)۔
☆بوڑھا مرد یا جوان شخص کا اپنی بیوی سے بوس وکنار کرنا بشرطیکہ وہ جماع اور مجامعت کا باعث نہ بنے _اس بابت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوس و کنار کرتے اور صوم ہی کی حالت میں لمس فرماتے (بدن کو چھوتے )تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت پر قادر تھے _(متفق عليه )۔
☆منی کا خروج یعنی بغير كسی قصد و ارادہ کے اس کا باہر آجانا جیسے سوچ اور غور وفکر کرنے پر منی کا نکل آنا تو اس سے بھی روزہ فاسد نہی ہوتا۔
☆جنابت،حیض یا نفاس کے غسل کو رات سے لے کر طلوع (صبح صادق کے طلوع ہونے )تک مؤخر کردینا ،البتہ نماز کے لئے غسل میں جلدی کرنا واجب ہے ۔
☆کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بشرطیکہ وہ مبالغہ کے ساتھ نہ ہو جیسا کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا "وضو کو پورا کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ (زور) کرو اس شرط کے ساتھ کہ تم روزہ سے نہ ہو ۔”(صحیح،رواہ اہل السنن)۔
☆کسی بھی وقت مسواک کرنا اور اسی طرح ٹوتھ برش اور پیسٹ استعمال کرنا بشرطیکہ وہ پیٹ میں داخل نہ ہو ۔
☆کھانے کا ذائقہ چکھنا،اس شرط کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے پیٹ کے اندر کچھ داخل نہ ہونے پائے۔
☆آنکھ اور کان میں سرمہ اور ڈراپ(قطروں)کا استعمال کرنا اگرچہ وہ حلق میں محسوس ہو رہا ہو ۔
☆انجکشن استعمال کرنا بشرطیکہ وہ غذائیت کا سبب نہ بنے اور اگر وہ پیٹ میں پہونچ جائےتو وہ خلاف عادت کے حکم میں شمار ہوگا۔
☆ان دواؤں کا استعمال کرنا جو پیٹ میں داخل نہ ہوں جیسے مرہم،یا آنکھوں کیلئے سرمہ اور تنفس کے مریض کیلئے (Inhaler)آلہء تنفس کا استعمال اور بخار وغیرہ لینا۔
☆دانت نکالنے یا ناک اور منہ یا کسی اور جگہ سے خون نکلنے یا نکالنے سے بھی روزہ فاسد نہی ہوتا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کوصحیح معنوں میں دین کو سمجھنے اور اس پر کتاب و سنت کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق ارزانی بخشے۔آمین۔

✍ تحریر: ابو سلمان شمیم عرفانی
( اسلامک دعوہ سینٹر عفیف،سعودی عرب)۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter