ایک پروگرام کا کتنا لوگے مولانا؟

ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ

9 اپریل, 2020

 
لگ بھگ شام کا پانج بج رہا ہوگا جب میرے دوست بے نام خاں آئے اور میری طرف یوں مسکرامسکراکردیکھنےلگے جیسے کوئی بادشاہ اپنے کسی ماتحت سے خوش ہوکر اس کی طرف دیکھتا ہے اور کچھ نوازنے کا اعلان کرتا ہے ۔ میں نے بھی اس مرتبہ کوئی غلطی نہیں کی اور کہا :
جہاں پناہ لگتا ہے خوش ہوکر غلام کو کچھ نوازنے والے ہیں!!میں خوش تھا کہ میرے دوست میرے جملے کے تیرسے گھائل ہوئے لیکن انہوں نے اسے یوں اثباتی ہنسی میں اڑایا کہ میں خود ہی اپنے دام میں آپھنسا ۔ حکم ہوا ” ہم غلام کو واقعی کچھ نوازنا چاہتے ہیں ، بولیے ، مولانا کتنا لیں گے ؟ "
اچھا ، تو ظل الہی واقعی میں غلام پر مہربان ہیں ۔ نوازیں حضور ہماری سات نسلیں آپ کی ممنون رہیں گی۔ میں نے اس بار ذرا اور گہرا ئی سے نشانہ لگانے کی کوشش کی ۔
ضرور ضرور ، ہم حکم کرتےہیں کہ تمہیں ہر ایک پروگرام کا دس ہزار روپیہ دیا جائے ۔ خان صاحب نے شاہوں والی ادا کے ساتھ حکم فرمایا ۔
کیا پروگرام ؟ آقا ، میں کچھ سمجھا نہیں ؟ میں ہڑبڑا ہی تو گيا ۔
خان صاحب نے قہقہہ لگایا اور گویا ہوئے : غلاموں کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ، بس دس ہزار پر نظر رکھو ، تمہیں ٹی وی ڈیبیٹ کا حصہ بننا ہے ، کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا ہے یہ ہم طے کریں گے ، کب غصہ ہونا ہے اور کب چپ رہنا ہے یہ ہمارے اشارے پر ہوگا ۔ کب گالی دینی ہے اور کب گالی سن لینی ہے یہ بھی ہم ہی طے کریں گے اور ہاں عقیدہ ، ایمان اور غیرت گھر پر رکھ کر جانا بس دس ہزار پر نظر رکھنا ورنہ بہت جلد رسوا کرکے باہر بھی نکالے جاسکتے ہو ۔
میں نے خان صاحب کی طرف دیکھا ، وہ شان بے نیازی سے مجھے دیکھ رہے تھے جیسے انہیں یقین تھا کہ دس ہزار کے آگے تو اچھے اچھے کچھ نہیں ، تو یہ کیا ہے ؟ میں نے پھربھی ایک سوال داغ دیا ۔ویسےظل الہی ، وہ دس ہزار پروگرام سے پہلے ملے گا یا بعد میں ؟
ظل الہی کا قہقہہ پھر بلند ہوگیا اور دیر تک کنٹرول سے باہر رہا ۔ پھر مسکراتے ہوئے ارشاد ہوا : بڑے چالاک معلوم پڑتے ہو مولوی ، پہلے کام پھر دام ۔ دیکھو ادھر پروگرام ختم ، تم نے میرے مطلب کی بات کی اور ادھر دس ہزار تمہارے ہاتھ میں ۔ ویسے مولوی صاحب ، دس ہزار پر ہی نظر مت رکھو ۔ دوچار پروگرام کے بعد ہی ایک معمولی مولوی سے نیشنل فیم کے بڑے حضرت بن جاؤگے ۔ کہاں کہاں بلائے جاؤگے سوچ نہيں سکتے ، وارے نیارے ہو جائیں گے تمہارے ۔فکر ونظر کی دنیا کو وسیع کرکے دیکھو تو دیکھتے دیکھتے زمین سے ثریا کا سفر کرنے لگ جاؤگے ۔
دس ہزار ہی کیا کم تھا اوپر سے خان صاحب کی ان باتوں نے ہمیں اور بھی لالچ میں ڈال دیا اور ہم نے خان صاحب کو ہاں میں جواب دے دیا ۔
پہلے پروگرام کے لیے گیا تو گفتگو دہشت گردی پر کرنی تھی اور مجھے مسلمانوں کے دفا ع میں بولنا تھا ۔ میری تقریر لاجواب رہی ۔ کئی لوگ ڈبیٹ میں میرا لوہا ماننے پر مجبور ہوئے اورعوام نے میری تقریر کو خوب سراہا ۔ ٹی وی اینکر نے بعد میں مجھ سے ہاتھ ملایا اور سرگوشی کی ” سر ، آپ دیر تک چلیں گے ، اچھی لیاقت ہے آپ کے اندر”
میں بھی خوش تھا کہ اگر ایسے ہی بولنے کا موقع ملے تو کیا مزہ آئے ، پیسہ کا پیسہ ،شہرت کی شہرت اور قوم کی مدافعت کا تمغہ ۔ ۔
میں واپس آیا تو خان صاحب نے بڑھ کر گلے لگایا ، پرتکلف چائے ناشتہ کرایا اور بغیر کسی ٹال مٹول کے دس ہزار روپے تھمادیے اور ساتھ ہی ارشاد ہوا ” بہت اچھی گفتگو کی آپ نے ۔ مزہ آ گیا ۔ بس یوں ہی ایسے ہی آپ کو آگے بڑھتے جانا ہے ۔ دیکھیے ہمارے پروگرام کا کمال ۔
وہاں سے نکل کر گھر کی طرف جارہا تھا تو راستے میں ایک جوان دور ہی میری طرف تيز قدموں سے آتا دکھا ، چہرے بشرے سے مسلمان نظر آتا تھا ، آتے ہی سلام کیا اور میرے ہاتھ چوم لیے ۔ واہ مولانا واہ ۔ کیا جواب دیا آپ نے ۔ دل جیت لیا ۔ اسے کہتے ہيں دین کا ڈیفینس ۔ جزاک اللہ خیرا ۔
میری خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ میں نے بھی دعائیں دیں اورآگے بڑھ گیا ۔ بیوی کے ہاتھ میں دس ہزار پڑے تو اس نے یوں مسکراکر آنکھوں سے اشارہ کیا کہ طبیعت ہی مچل گئی ۔ شادی کے شروعاتی دنوں کی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ رات بھی ہماری ایسی گزری کہ خواب وخیال حقیقت بن گئے !!
دوسرے ہفتے بے نام خاں نے ہمیں بلایا اور ارشاد فرمایا ” مولانا ، آج کے پروگرام میں آپ کو سعودیہ کے فیور میں بات کرنی ہے ۔ بتانا ہے کہ وہاں اسلامی حکومت قائم ہے اور وہاں جو کچھ کیا جاتا ہے وہ غلط نہيں ہے ۔ مزارات وغیرہ کی طرف اشاروں اشاروں میں بات کرنی ہے ”
میں نے انہیں یاد دلایا کہ میرے عقیدے کی روسے یہ سب باتیں درست نہيں ہیں ۔ خان صاحب نے مجھے دس ہزار اور نیم فیم یاد دلایا ۔ مجھے اپنی بیوی کی مسکراہٹ یاد آئی اور میں پروگرام میں چلا گیا ۔
آج میں نے منطق وفلسفہ کا سہارا لیا ۔ باتوں کو گھما پھراکر پیش کیا ۔ ” ٹھیک ہے کہ میں ان کا ہم مسلک نہیں ہوں لیکن اس کا یہ مطلب کب ہوتا ہے کہ میں جادہ انصاف سے الگ ہو جاؤں ۔ میں سچ کہوں گا کسی کو سچ کڑوا لگتا ہے تو لگا کرے "
پھر میں نے جم کر سعودی عرب کی اسلامی ، رفاہی اور دینی خدمات کے حوالے دیے ۔ میری باتوں پر تالیاں بھی پڑیں اور کچھ لوگوں نے برا سا منہ بھی بنایا لیکن اہم بات یہ تھی کہ اینکر نے پروگرام کے بعد مجھے خوب سراہا اور خان صاحب نے دس ہزار کے علاوہ ایک ہزار بطور انعام کے بھی نوازا ۔
بیوی بھی خوش رہنے لگی تھی ، یہ گیارہ ہزار اس کے لیے کسی سرپرائز سے کم نہيں تھا ۔ میں نے اسے بانہوں میں جکڑا اور کہا : جان من ، آگے آگے دیکھتی جاؤ ، یہ مولوی کیا کیا کرتا ہے ۔اور اس نے میرے ہونٹ یوں چوم لیے جیسے میں نے جو کچھ کہا ہے وہ جھوٹ ہو ہی نہيں سکتا ۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب تیسرے ہی دن خان صاحب نے مجھے فون کرکے اپنے گھر یہ کہہ کر بلایا کہ تشریف لائیے مولانا ، آپ تو چھاہی گئے ۔ ڈیمانڈ بڑھنے لگی ہے آپ کی ۔ آئیے آئیے ۔
میں پہنچا تو ایک ٹی وی چينل کے مالک بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ چائے کے بعد بات ہونے لگی ۔ ہاں مولانا ، یہ دیکھیے یہ کرشنن جی ہیں ، آپ کو اپنے ٹی وی پروگرام میں لانے کےلیے آ‏ئے ہیں ۔ آپ کو دس کی بجائے پندرہ ہزار ملے گا ۔ ان کے پروگرام میں آپ مسلمانوں کو نصیحت کریں گے کہ وہ کیوں گندے رہتے ہیں ، آخر وطن سے محبت کیوں نہیں کرتے اور ملک کے لیے جان دینے کو کیوں غلط سمجھتے ہیں ۔
میں نے کہا : خان صاحب ، لیکن مسلمان تو اس ملک سے محبت کرتے ہی ہیں اور ہمیشہ سے ملک کے لیے آگے آگے رہے ہیں پھر میں ۔۔۔۔
کرشنن جی نے بیچ ہی میں میری بات کاٹ دی اور خان صاحب سے کہا : لگتا ہے آپ نے انہیں ٹھیک سے سمجھایا نہیں ہے ۔ ان سے نہیں ہوگا تو کوئی اور مولانا دیکھیے ۔
خان صاحب نے انہیں شانت کیا اور کہا : کرشنن جی ، آپ بے فکر رہیے ۔ یہ آپ کے مطلب کی ہی بات کریں گے ۔ کیوں مولانا ، میں غلط تو نہیں کہہ رہا نا ؟
مجھے پندرہ ہزار یاد آئے اور میں نے جھٹ کہا : ہاں ہاں ، میں تو بس ایسے ہی استفسار کررہاتھا ۔
پروگرام میں میں نے وہ دھنوادھار تقریر کی کہ لوگ دیکھتے رہ گئے ۔ میں نے کہا ، مسلمانو، آرایس ایس سے حب الوطنی سیکھنے کی ضرورت ہے ، ہم کب تک یوں ملک سے الگ رہیں گے ، یہ ہمارا ملک ہے تو ہمیں اسے صاف رکھنا ہے ، اس کے لیے جان دینی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کرشنن جی نے پندرہ ہزار کےعلاوہ پانچ ہزار کا نذارنہ بھی دیا اور فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے کی دعوت بھی ۔ددمہینے کے اندر میں نے مہنگی ترین کالونی میں اپنا گھر لے لیا ۔ بچوں کو بڑھیا سے بڑھیا اسکول میں داخلہ دلانے کا سوچنے لگا ۔ اس معاملے میں کرشنن جی نے میری خوب مدد کی اور میری گردن ان کے احسانوں تلے دب کر رہ گئی ۔ پھر تو یہ معمول ہی ہو گیا ۔ جب کبھی ایسا لگتا کہ لوگ مجھے کہیں اسلام دشمن نہ سمجھ لیں مجھے کوئی ایسا موضوع دیا جاتا جس میں اسلام کا ٹھیک سے دفاع کیا جا سکے ، مسلمانوں کو خوش کیا جا سکے اور نرا پٹھو ہونے کے روپ سے باہر نکال کر رکھا جاسکے ۔میں جو ایک معمولی مولوی تھا مجھے وزیر اعظم ، وزیر اعلی ، ڈیفنس منسٹر اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کے ساتھ کھانا کھانے اور تبادلہ خیالات کے مواقع دستیاب ہوئے اوربہتیرے مواقع سے مہمان بنا کر باہر بھی بھیجا گيا کہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کروں اور دنیا کو بتاؤں کہ ہم مسلمان حکومت سے کتنے خوش رہتے ہيں ۔
ایک روز خان صاحب نے چٹکی لی اور کہا : اور مولانا ، ارے اب یہ بھی یاد ہے کہ نہیں کہ آپ خود کیا مانتے ہیں اور کیا نہیں مانتے ہیں ؟ خان صاحب کے سوال نے مجھے پریشان کردیا ۔ میں مسکراکر رہ گیا لیکن اس دن جب گھر لوٹا تو رات بھر نیند نہیں آئی ۔ شام کو میرا بھتیجہ گاؤں سے آیا تھا ۔ ماں نے اس کے ہاتھ ایک چٹھی بھیجی تھی۔ اس میں لکھا تھا ” ببوا ، جھوٹ مت بولنا ، یہاں لوگ کہتے ہیں کہ تم بک گئے ہو ، ضمیر کا سودا کرلیا ہے ، قوم کو بیچ کراپنا پیٹ پالتے ہو ، تم سچ بتانا تاکہ میں سب کو بتا سکوں کہ میرا بیٹا بکا ہوا نہيں ہے ویسے تمہارا پروگرام دیکھ کر اور باتیں سن کر میں بھی انہیں جواب دینے سے رہ جاتی ہوں ۔ جوا ب ضرور دینا ۔ تمہاری ماں ۔۔۔۔۔۔۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter