*نومولود کی ولادت پر مسنون اعمال*

تحرير: شمیم عرفانی / اسلامک دعوہ سینٹر عفیف

8 اپریل, 2020
سوال :  
محترم! مجھے نو مولود کی پیدائش کی مناسبت سے اعمال کی بابت جواب درکار ہے،رہنمائی فرمائیں۔جزاكم الله خيرا. ( سائل )۔
جواب: وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته…
برادرم! اللہ آپ کو سدا مبارک،سرخرو اور شادکام رکھے۔آمین۔
آپ کا سوال مختصر بھی ہےاور مبہم بھی،لیکن فحوائے کلام سے میں نے سوال کا جو مفہوم اخذ کیا ہے وہ یہ کہ شرعی نقطہء نظر سے ولادت کے بعد بچے کے حق میں مسنون اور مستحب اعمال کیا ہیں؟ سو اس کا مختصر جواب پیش خدمت ہے۔
ولادت کے بعد مسنون اعمال میں: 
1- بچے کے والدین اور اہل خانہ کو مبارکباد دینا 
نومولود کے والدین،رشتہ دار اور اقاریب کو مبارکباد دینا مستحب ہے،اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان الفاظ میں بشارت دی :
"فبشرناه بغلم حليم” (الصافات:101)
” پس ہم نے انھیں ایک بردبار بچے کی بشارت دی”
تبریک کے کلمات میں مثلا "بارك الله لك في الموهوب ، شكرت الواهب ، بلغ أشده و رزقت بره”.یا اس جیسے اور بھی دوسرے دعائیہ کلمات استعمال کئے جاسکتے ہئں۔
ایوب سختیانی رحمہ اللہ جب کسی نومولود کی ولادت پر مبارکباد دیتے تو یہ کلمات کہتے :
"جَعَلَهُ اللهُ مُبَارَكاً عَلَيكَ وَعَلى أُمَّةِ مُحَمّدٍ ٍصَلّى اللهُ عَليهِ وَسَلّم”
"اللہ تعالی اسے تیرے لیے اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ بنائے”۔
2- نومولود کے دائیں کان میں اذان دینا
حالانکہ اہل علم کے مابین یہ اختلافی مسئلہ ہے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب” تحفۃ المودود باحکام المولود”میں نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کو مستحب لکھا ہے۔
اس بارے میں متعدد احادیث ہیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے جس کو حضرت ابورافع ؓ نے روایت کیا ہےفرماتے ہیں” کہ میں نے رسول کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے حسن رضي الله عنه کی پیدائش پر اُن کے کان میں اذان دی” ۔
(سنن ابو داؤد، کتاب الأدب،باب فی الصبي يولد فيؤذن فی أذنہ)۔
دوسری حدیث امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں ذکر کی ہے:
ہاں اقامت کے تعلق سے بالکل واضح بات یہی ہے کہ یہ درست نہیں ہے جن معاصر علماء نے اذان کی مشروعیت پراختلاف کیا ہےان میں : 
شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ .شیخ عبد المحسن بن حمد العباد .شیخ عبد العزیز الطریفی.ڈاکٹر عمر بن عبد اللہ المقبل.شیخ عبد اللہ الحمادی ، شیخ حامد بن عبد اللہ العلی .ڈاکٹر سلیمان العیسی.شیخ ڈاکٹر خالد بن علی المشیقح حفظہم اللہ جمیعا۔۔۔وغیرہم کے نام شامل ہیں۔ 
3- نو مولود کا کوئی پیارا اسلامی نام رکھنا۔
نبئ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’حق الولد علی والدہ أن یحسن إسمه ویحسن من مرضعه، ویحسن أدبه‘‘۔(شعب الإیمان، باب في حقوق الأولاد والأھلین، رقم الحدیث:8667،
6؍402،دارالکتب العلمیۃ)
یعنی’والد کے ذمہ اولاد کا حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے،اور اس کو دودھ پلانے والی کے ساتھ احسان کرے اور اس کو اچھا ادب سکھلائے‘‘۔
المارودى رحمه اللہ كہتے ہيں:
” جب بچہ پيدا ہو تو اس كى سب سے پہلى عزت و تكريم اور اس كے ساتھ نيكى میں يہ بھی شامل ہے كہ اس كا اچھا اور بہتر سا نام ركھا جائے، كيونكہ اچھے اور بہتر نام كا سنتے ہى دل ميں ایک مقام اور وقار پيدا ہوتا ہے ” انتہى مختصرا.
ديكھيں: نصيحة الملوك صفحہ نمبر ( 167 )
4- ساتویں دن نومولود کے بال منڈوانا
نومولود کے بال کتروانے کے سلسلے میں جمہور فقہاء کے نزدیک شرعی حکم یہی ہے کہ ساتویں دن نومولود کے بال کترواکر ان بالوں کے وزن کے مساوی چاندی صدقہ کرنا مستحب ہے۔سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
” بچے کے ساتھ عقیقہ ہے ، لہذا اس کی طرف سے خون بہاو اور اس سے میل کچیل کو دور کرو(یعنی سرمنڈاو)” ۔ (رواه البخاري معلقا مجزوما به، وأحمد وأبوداود وغيرهما)۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کی اور فرمایا:
” اے فاطمہ ! اس کا سرمنڈواؤ اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو، پھر انھوں نے اس کا وزن کیا تو اس کا وزن درہم یا درہم کا کچھ حصہ ہوا”
(رواه الترمذي والحاكم ، وصححه الألباني في صحيح الجامع).
5- نو مولود کی طرف سے عقیقہ کرنا 
عقیقہ کے لغوی معنیٰ کاٹنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ یا بچی کی طرف سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے اُسے عقیقہ کہتے ہیں۔
الماوردى كہتے ہيں:
رہا عقيقہ تو ولادت كے وقت جانور ذبح كرنے كو عقيقہ كہتے ہيں، اور يہ چيز اسلام سے قبل عرب كے ہاں پائى جاتى تھى ” الحاوى الكبير ( 15/ 126 ).
سمرہ بن جندب سے مرفوعا روایت ہے کہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"ہر بچہ اپنے ءعقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے جانورذبح کیا جائے،اس بچہ کاسر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے”۔
أخرجه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه)۔
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مع الغلام عقيقة فأهريقو عنه دما وأميطوا عنه الأذى” (رواه البخاري معلقا وغيره)۔
” ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے،تو اس کی طرف سے خون بہاو (عقیقہ کرو) اور اس سے میل کچیل کو دور کرو (یعنی سر کے بال مونڈ دو) "۔
بچہ كى طرف سے دو اور بچى كى طرف سے ايک بكرا ذبح كرنا مشروع ہے۔
عائشہ رضى اللہ عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بچے كى جانب سے پورى دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ذبح كرنے كا حكم ديا "
سنن ترمذى ( 1513 )،ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، سنن ابن ماجہ ( 3163 ) صحيح سنن ترمذى ( 1221 ).
نیز ام كرز رضى اللہ عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عقيقہ كے متعلق دريافت كيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” بچے كى جانب سے دو بكرياں اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ہے، اس ميں كوئى نقصان نہيں كہ وہ بكرا ہو يا بكرى "
سنن ترمذى ( 1516 )،ترمذى نے اسے حسن صحيح قرار ديا ہے،سنن نسائى( 4217 )،شیخ البانى رحمہ اللہ نے إرواء الغليل ( 4 / 391 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
بعض اہل علم کے نزدیک ساتویں دن اگر عقیقہ کرنا آسان ہوتو ساتویں دن کیا جائے،اگر ساتویں دن ممکن نہ ہوتو چودہویں دن اور تب بھی ممکن نہ ہوتو 21 ویں دن ذبح کیا جائے۔
عقیقہ میں دعوت طعام کرنا کوئی ضروری نہیں احباب واعزاء اور ہمسایوں کے درمیان گوشت کی تقسیم پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے بلکہ میرے ناقص علم کے مطابق یہ زیادہ انسب اور افضل ہے۔
6- نو مولود کی تحنیک کرنا 
یعنی اس کو گھٹی دینا بھی مسنون اعمال میں سے ہے یعنی کسی بزرگ تقوی شعار اور پاک طینت شخص سے کھجور کا کوئی ایک آدھ دانہ یا کوئی بھی میٹھی چیز چبواکر اس کا معمولی سا حصہ،لعاب یا اثر بچے کےحلق میں ڈالنااور اس کےحق میں دعاکرنا۔ 
عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں:
"أن رسول اللہ ﷺ :کان یؤتی بالصبیان، فیبرِّك علیھم ویُحنِّکُھم”،
کہ:رسول اللہ ﷺ کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تو آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کی تحنیک فرماتے تھے۔
(صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیك المولود عند ولادته و حمله إلی صالح یحنکه، رقم الحدیث:2147،بیت الافکار).
7- ختنہ کرنا۔ 
ختنہ كرنا فطرى سنت ميں شامل ہےجيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے واضح ہے:
” پانچ اشياء فطرت ميں شامل ہيں: ختنہ كرنا، زيرناف بال مونڈنا،بغلوں كے بال اكھيڑنا، اور ناخن تراشنا، اور مونچھيں كاٹنا "
صحيح بخارى ( 5550 )صحيح مسلم ( 257)
اور بلا شک وارتیاب یقینی طور پر ان فطری اموركى مشروعيت كى بعض حكمتيں بھی اب ظاہر ہو چكى ہيں اور ختنہ بھى انہيں امور ميں ایک ہے اس كے كچھ اہم فوائد بالخصوص بہت سی طبی حکمتیں بھی اب تک واضح ہو چكی ہيں جو قابل التفات اور لائق غور ہيں اور ان سے شريعت كى باریک مصلحتیں بھى مبرہن اور مترشح ہوتى ہیں.
یہ بعض اہم امور ہیں جن کی طرف میں نے سرسری طور پر ایک اشارہ کردیا ہے اہل علم نے اس موضوع پر بڑی شرح وبسط کے ساتھ مستقل کتابیں لکھی ہیں مزید تفصیل کیلئے ان کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
اللہ ہم سب کو فہم دین و حسن عمل کی توفیق ارزانی بخشے۔آمین۔ 
هذا ما عندي والله أعلم.
کتبہ/ شميم عرفاني
14 شعبان 1441 بروز منگلوار 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter