نیپالی زبان اور مدارس اسلامیہ

[ صفی اللہ محمد الأنصاري]

11 دسمبر, 2019

دنیا کے تمام ممالک میں مختلف ادیان و مذاہب،  تہذیب و ثقافت، کلچر اور زبان کے لوگ پائے جاتے ہیں مگر ہر ملک کی اپنی خاص تہذیب اور خاص قومی اور سرکاری زبان ہوتی ہے جس کے ذریعہ ملک کے سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور اقتصادی  تمام شعبوں میں اپنی حیثیت کو نمایاں کیا جاتا ہے اور ترقی کے مدارج طے کئے جاتے ہیں۔

اگر ہم نیپال کی بات کریں تو یہاں بھی مختلف ادیان و مذاہب اور ملٹی کلچرز کے لوگ رہتے ہیں جنکی علاقائی زبان و اسلوب ایک دوسرے سے جدا ہے اور ہر ایک کو اپنی اپنی زبان کے فروغ و ارتقاء کی بھرپور آئینی حق بھی ہے لیکن یہاں کی قومی اور سرکاری زبان (National /Official Language) نیپالی ہے ۔ یہاں کے باشندوں میں سے %44.6  اسے مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں اور %32.8 ثانوی زبان کے طور پر بولتے ہیں ، ہندوستان کے صوبہ سکیم میں "نیپالی” آفیشیل لانگویج کے طور پر استعمال ہوتی ہے ، مغربی بنغال میں "نیپالی” ثانوی آفیشیل زبان ہے ، اسی طرح سے بھوٹان میں %35 لوگ نیپالی زبان بولتے ہیں ، تبت کے  کچھ باشندے بھی نیپالی زبان بولتے ہیں۔ اور دنیا کے ان تمام ممالک میں نیپالی زبان بولی جاتی ہے جہاں نیپالی افراد رہتے اور بستے ہیں۔ ہندوستان کے2011 کے نیشنل اعداد و شمار کے مطابق %0.25 یعنی 29,26,168 (انتیس لاکھ چھبیس ہزار ایک سو اڑسٹھ) انڈین نیپالی بولتے ہیں اور پوری دنیا میں  نیپالی زبان بولنے والے تقریبا 40 ملین سے زائد پائے جاتے ہیں ۔

کسی بھی ملک کے باشندے اگر اپنی قومی زبان سے نا آشنا ہوں تو انکی حیثیت ملکی پیمانے پر گونگے سے بدتر سمجھی جاتی ہے ، سیاسی اعتبار سے انکی ویلیو زیرو مانی جاتی ہے ، انکے وجود پر ہمیشہ خطرات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں ۔ برادران وطن کی جانب سے موقع بہ موقع طعن و تشنیع کے سوغات بھیجے جاتے ہیں ۔ ملکی خدمات کیلئے انھیں بےسود ، گنوار ، پچھڑا اور بیکورڈ تصور کیا جاتا ہے ۔

چونکہ ہم نیپالی مسلمانوں کا نیپالی زبان سے ملکی، سیاسی ، اقتصادی اور دعوتی ہر لحاظ سے بڑا گہرا ربط ہے اسلئے اسکے سیکھنے سکھانے کا بطور خاص اہتمام کرنا چاہیئے بلکہ ادبی لیول تک پڑھنا اور سیکھنا چاہئیے۔ تاکہ دین کی تبلیغ و اشاعت میں بھر پور معاون ثابت ہو چونکہ ہمارا مخاطب اور مدعو اسی زبان سے وابستہ ہے اسلئے ہم دوسری زبان میں کما حقہ دعوتی مشن کو پورا نہیں کر سکتے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے ہر پیغمبر کو مخاطب ہی کے زبان میں بھیجا ” وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ” [ابراهيم/4].
یعنی ہم نے ہر رسول کو اسکے قومی زبان میں بھیجا تاکہ انھین پوری  وضاحت سے سمجھا سکے۔

 اسی طرح اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلیگا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہود کے ساتھ خط و کتابت اور مراسلت کی ضرورت پڑتی تھی مگر یہودیوں کی عبرانی زبان کو سمجھنا اور جواب دینا بڑا مشکل امر تھا اسلئے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہود کی زبان سیکھنے کا حکم دیا ، ابو داود کی روایت ہے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نے صرف 15 دن میں یہودکی زبان سیکھ لی پھر جب لکھنے کی ضرورت پڑتی تو لکھتا اور پڑھنے کی ضرورت پڑتی تو پڑھتا۔ [ابو داود]

ثابت ہوا کہ مخاطب کی زبان جانے بغیر دعوت کا کام کرنا یا کسی اور شعبے میں حصہ لینا کامیابی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ اسلئے نیپالی مسلمانوں کا بالخصوص مدارس اسلامیہ سے منسلک تمام علماء و طلباء اور دعاة و مبلغین کا نیپالی زبان پر عبور اور دسترس جزء لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ہماری دعوت کے سب سے زیادہ مستحق پہاڑ میں بسنے والے افراد ہیں جن تک اسلام کا صحیح پیغام پہونچانا اولین ذمہ داری ہے اور اسکے لئے نیپالی زبان پر درک اور اس کی معرفت لازمی امر ہے ۔ اس سلسلے میں نیپال کے اسلامی مدارس  مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن صورتحال اس سے مختلف ہے کیونکہ مدارس کا غیر مرتب نصاب تعلیم اور طرز تدریس نہایت افسوسناک ہے ۔  
در اصل نیپال کے دینی مدارس میں نیپالی زبان ایک سبزیکٹ کی حیثیت سے ضرور پڑھائی جاتی ہے مگر مطلوبہ کوشس نہیں ہو پاتی جسکی وجہ سے علماء و طلباء نیپالی زبان میں بہت کمزور نظر آتے ہیں (الا ماشاء الله) آخر کیا وجہ ہے کہ ہم مدارس والے عربی ،انگلش ، اردو،  ہندی یہانتک کہ فارسی بھی جانتے ہیں مگر اپنی ہی قومی زبان کی ادائیگی میں ہچکچاہٹ اور شرم و عار محسوس کرتے ہیں! اسکا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم پوری دنیا کی خبر تو رکھتے ہیں مگر اپنے دیش میں کیا ہو رہا ہے کوئی جانکاری نہیں ۔ ظاہر ہے کہ ہم نے اس زبان کی اہمیت کو نہیں سمجھا ، اس کے حصول کیلئے خاطر خواہ محنت نہیں کی ، نیپال کی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں سے دلچسپی نہیں لیا ورنہ وہ طالب جسکی ذہانت و فطانت اور ٹائلنسی سر چڑھ کر بول رہی ہو کہ بیک وقت چار چار زبانوں پر دسترس رکھتا ہو وہ اپنی قومی زبان سے نابلد کیسے ہو سکتا ہے؟

اسکے بہت سارے اسباب و عوامل ہیں جنھیں ذیل میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے:-

● نیپالی زبان کو صرف کورس کی حد تک جیسے تیسے پڑھنا اور پڑھانا۔
● بعض نیپالی اور گڑت ٹیچروں کا کلاس میں اردو یا دیہاتی بولنا۔
● بعض مدارس میں”انگلش ٹیچر” نیپالی کے بجائے انڈین رکھنا یا کسی مولانا کے سپرد کردینا جو معنی ومفہوم خالص اور ٹھوس اردو میں بتائے۔
● سالانہ انجمن کے علاوہ ہفتہ واری انجمن میں دیگر زبانوں کیساتھ ساتھ نیپالی زبان میں تقریری مشق نہ کروانا۔
●  مدارس میں نیپالی بول چال کا قطعی ماحول نہ ہونا۔
● بعض طلبہ کا بچپن ہی میں ہندوستان کے مدارس کا رخ کرنا۔
● بیشتر مدارس اور کلیات البنات میں صرف پرائمری یا متوسطہ ہی تک نیپالی مادے کو محدود کر دینا۔
● مدارس میں دینی محاضرات کیلئے صرف اردو داں ہی کو مدعو کرنا۔
● پہاڑی علاقوں میں  دعوت دین کی نشر و اشاعت پر توجہ نہ دینا۔
● اسلامی تعلیمات کو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنا۔
● دینی دعوت اور تعلیم و تصنیف کو ایک مخصوص زبان میں فروغ دینا ۔
● نیپال کی یونیورسیٹیوں میں عربک ڈیپارٹمنٹ کا عدم قیام ۔
● نیپال کی تاریخ اور سیاست سے صرف نظر ۔

اسکے علاوہ اور بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں جنھیں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہیکہ اگر مذکورہ اسباب و عوامل پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو کافی حد تک نتائج مثبت اور ثمرآور ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ مدارس کے طلباء ماشاء الله گوناگوں خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں اگر ان پر تھوڑی سی مخلصانہ توجہ دے دیجائے تو ان شاء الله انکے اندر جو احساس کمتری ہے وہ دور ہو سکتی ہے اور اردو کی طرح نیپالی میں بھی بیباکانہ انداز میں تقریر و تحریر کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں، اپنے حقوق کی لڑائی لڑ سکتے ہیں ، نیپال کی سیاست کا حصہ بن سکتے ہیں، برادران وطن سے مرعوب ہوئے بغیر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں کی بھاشا میں کسی بھی ایشو کا  جواب دے سکتے ہیں ۔

 ہمارے ملک کا جمہوری دستور گرچہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے ثقافتی،علاقائی اور مادری زبان کو فروغ دینے اور بولنے کیلئے آزاد ہیں لیکن اس بات کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری آفیشیل اور قومی زبان نیپالی ہے ، سرکاری اڈوں ، عدالتوں اور دیگر آفسوں میں نیپالی زبان ہی میں دستاویزات پیش کئے جاتے ہیں جہاں پہونچ کر ہمیں ضرور سبکی محسوس ہوتی ہے ، ذرا بتائیے عربک میڈیم کا ایک گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ یا پی-ایچ- ڈی ہولڈر ایک چھوٹا سا اپلیکیشن اپنی قومی زبان "نیپالی” میں نہ لکھ سکے اس سے بڑی شرمندگی اور کیا ہو سکتی ہے؟

میں یہ نہیں کہتا کہ علماء دین اور طلباء مدارس نیپالی زبان سے بالکلیہ ناواقف ہیں۔ الحمد للہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کی توفیق اور اپنی ذاتی کاوشوں سے نیپالی زبان میں دعوتی فرائض انجام دے رہے ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو ادبی انداز میں لکھنا اور بولنا بھی جانتے ہیں یہاں تک کہ بعض کتابوں کا نیپالی زبان میں ترجمہ بھی کرتے ہیں اور آرٹیکلز بھی لکھتے ہیں مگر ایسے لوگ بہت معمولی ہیں ۔ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نیپالی پڑھنا اور سمجھنا تو جانتے ہیں مگر بولنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، اسی لئے اگر کوئی مدارس کا پڑھا لکھا نیپالی اچھی بول لیتا ہے تو لوگ اسکی جانب حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ارے یہ تو نیپالی فرفر بولتا ہے گویا کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔ 

خلاصہ کلام اینکہ "نیپالی زبان” وقت کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جسے قبول کرنا علماء کی اہم ذمہ داری ہے ، چونکہ اب مدارس بھی رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جنکا سارا ڈاٹا نیپالی میں تیار کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے میں نیپالی زبان کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ بنا بریں ہم ارباب مدارس سے مخلصانہ گزارش کرتے ہیں کہ عربی ،انگلش اور اردو کے ساتھ ساتھ نیپالی پر خصوصی توجہ دیں تاکہ طلبہ مدارس اپنے جملہ فرائض کو بخوبی انجام دے سکیں۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter