کنبے، قبائل اور بلدان کی طرف نسبت کی تاریخ

فاروق عبد اللہ ناراین پوری

18 نومبر, 2019
اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے :  وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ لِتَعارَفُوا( )
(اور ہم نے تمہیں کنبے اور قبائل میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔) 
کنبے،قبائل اور بُلدان  کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اسلام سے پہلےبھی اہل عرب اپنے آپ کو آباء واجداد اور قبائل کی طرف منسوب کرتے تھے۔  یہیں سے علم الانساب جیسا ایک اہم علم پیدا ہوا ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سیکھنے کا حکم دیا ہے، ارشاد فرماتے ہیں:  "تعلموا من أنسابكم ما تصلون به أرحامكم”( )۔
(تم اپنے انساب کو سیکھو  جس سے صلہ رحمی کر سکو۔) 
صحابہ کرام میں ابو بکر صدیق، ابو جہم  بن حذیفہ عدوی اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم  کو  اس علم میں بڑا اونچا مقام ومرتبہ حاصل تھا۔  بلکہ خلفائے راشدین کو علم الانساب کا بڑا ماہر مانا جاتا تھا( )۔ 
اسلام سے پہلے اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ قبائل کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے ، پھر جب اسلام آیا اور گاؤں، دیہات اور شہروں میں سکونت کا سلسلہ بڑھنے لگا تو جگہوں کی طرف وہ اپنے آپ کو منسوب کرنے لگے( )۔
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ عراقی فرماتے ہیں: 
وَضَاعَتِ الأَنْسَابُ في البُلْدَانِ … فَنُسِبَ الأَكْثَرُ لِلأَوْطَانِ( )
اور علامہ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  "وقد كانت العرب إنما تنتسب إلى قبائلها فلما جاء الإسلام وغلب عليهم سكنى القرى انتسبوا إلى القرى كالعجم”( ). 
 (اہل عرب اپنے قبائل کی طرف منسوب ہوتے تھے، جب اسلام آیا اور گاؤں میں رہنے کا چلن بڑھا تو عجمیوں کی طرح وہ بھی گاؤں کی طرف منسوب ہونے لگے۔) 
اگر ہم اسلامی تاریخ  پر نظر دوڑائیں تو نسبت کے لئے متعدد اسالیب  نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ بعض قبائل کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں تو بعض ولاء( ) کی طرف، بعض گاؤں اور شہروں کی طرف تو بعض آباء واجداد کی طرف، اسی طرح بعض حضرات تجارت اور پیشوں کی طرف بھی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں( )۔ 
موجودہ زمانے میں ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں کی طرف منسوب ہونے کا رواج  عام ہو گیا ہے،  دوسرے ممالک میں شاید اب تک یہ سلسلہ نہ ہوسوائے جامعہ ازہر (مصر) کے۔ حالانکہ علماء ہند کی تاریخ میں اوطان اور بلدان کی طرف منسوب ہونے کا ہی سلسلہ ہمیں ملتا ہے، تعلیمی اداروں کی طرف نہیں۔ بہرحال تعلیمی اداروں کی طرف انتساب کا یہ اسلوب اب معروف ومشہور ہے۔  اور اس میں شرعا یا عُرفا ان شاء اللہ  کوئی حرج نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے یہ علماء متقدمین کی سنت نہیں ہے، اور اپنے اسلاف کی سنت ہمیں نہیں چھوڑنی چاہئے، بلکہ اسے زندہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ واللہ اعلم ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter