نیپال، اُردو کی اک آباد نگری

(سید خالد محسن)

5 نومبر, 2019

کہتے ہیں مکان میں اگرمکیں نہ ہوں تو جالے لگتے دیر نہیں لگتی اور جلد ہی ویرانے بد رُوحوں  کا مسکن قرار پاتے ہیں۔ زبانوں کے معاملات بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جب تک اس کو بولنے، لکھنے  اور روزمرہ میں برتنے والے اس کو آباد رکھتے ہیں یہ زندہ رہتی ہیں  ورنہ عبرانی کی طرح  ناپید و غیر مقبول ہو جاتی ہیں۔اردو کی نسبت یہ قول بھی مقبول عام ہے کہ  اردو کے برصغیر پاک و ہند میں  قد آور زبان ہونے میں زیادہ تر کردار دینی مدارس کا ہے ، یہ بات یوں درست ہے  کہ یہ زبان علوم اسلامیہ کے صدقے مدرسہ اور پھر مدرسے سے نکل کر خطباء  کی تقریروں کے توسط سے عوام الناس تک پونہچی۔ تاہم یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شعراء کی شاعری نےبھی  اس زبان کو عام ہونے ،  پھلنے پھولنے اور روزمرہ کی زبان کی بنانے میں ایک اہم کردارادا کیا ہے اور یہی وجہ ہے آج کہ گلیوں بازاروں، چوکوں چورہواں اور خرید و فروخت کے مراکز میں اردو زبان بولنے یا کم سے کم سمجھنے  والے ضرور مل جاتے ہیں۔دیکھا جائے تو نیپالی زبانوں کی حرکت، لکھت، اور برت عموماً سنکسرت سے میل  کھاتی ہے اور اردو اس اعتبار سے ایک الگ تھلگ حیثیت کی حامل زبان ہے لیکن قبول عام اورشعر و سخن میں اردو زبان کا شہرہ اور چاشنی اپنی معاصر زبانوں سے کہیں زیادہ ہے جس  کی ایک بڑی وجہ شاعری قرار دی جا سکتی ہے۔  

شبستانِ  نیپال کے تین اطراف  سرحدی اعتبار سے بھارت کے ساتھ متصل ہیں چنانچہ ‘ مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں’۔ بالخصوص ترائی نیپالی سرحدی علاقوں کی بودوباش، رہن سہن اور بول چال پہ منسلک علاقوں کی ثقافت اور تہذیب کے غالب اثرات ہیں  لہذا ان علاقوں میں اردو کے مختلف رنگ، آہنگ اور ڈھنگ دیکھنے کو بخوبی ملتے ہیں۔اب  اردو زبان نے ملک نیپال  کو اپنا مسکن کب بنایا، کس زمانے  میں اور کیسے کیسے یہ پروان چڑھی قصہ ہذا اک علیحدہ مکمل مضمون کا متقاضی ہے البتہ دورِ حاضر میں اردو کے متعلق کوئی گمان بھی نہیں  کر سکتا ہے کہ ایک سو پچیس زبانوں والے اس دیس میں اردو دس سر فہرست زبانوں کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔

جیسا کہ شروعاتی بحث میں شعر و سخن کو اردو کے قبول عام ہونے کی ایک بڑی وجہ گردانا گیا ہے تو راقم گذشتہ چار سالوں سے اس پہلواتی وجہ  کا چشم دید گواہ بھی ہے اور  حصہ بھی۔ واقعہ یوں کہ سن دو ہزار پندرہ میں ملک نیپال یکے بعد دیگرے دو ہولناک زلزلوں سے لرز اٹھا نتیجتا جہاں اس زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی وہیں خیر کا ایک پہلو یہ کہ ملک نیپال دنیا بھر میں تفصیلا متعارف ہوگیا۔ پھر کیا تھا دنیا بھر سے بین الاقوامی امداد کی  انسانی فلاحی تنظیمیں اور حکومتیں اپنے  اپنے دل اور جیبیں لئے دکھ کی اس گھڑی میں  ہمالیہ قوم کی مددکے لئے آن پہنچیں، راقم بھی اسی جذبے سے سرشار نیپال آن پہنچا۔  دکھ کے لمحات، عوام کی پریشانیاں اور مابعد زلزے  کےاثرات  ذراتھمے ، سانسیں بحال ہوئی تو زندگی کی رمق چہروں سے دوبارہ سے عیاں ہونے لگی اور اسی درمیاں اردو ادب کے محبین سے ملاقتوں نے نیپال میں اردو زبان سے میرا پہلا تعارف کروایا۔اُردو کے اس قدر دیوانے تو میں نے اپنے ملک میں بھی کم کم دیکھے، زبان سے جڑے،  پیار میں گندھے،  لطافت کا شہد لئے اور زبان پے اُردو کا نام جپتے کیسے کیسے دوست مجھے رشتہ اخوت میں یوں جکڑتے چلے گئے میں بھول گیا کہ ایک پردیسی ہوں اور کبھی لوٹ کے جانا بھی ہے۔

انہی دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ شعر و سخن کی محفلیں کاٹھمنڈو میں بھی برپا ہوتی ہیں، مشاعرے آج بھی یہاں کی گہما گہمی میں گم نہیں ہوئے، اردو سے شغف رکھنے والے آج بھی مل بیٹھتے ہیں تو کئی پڑھے لکھے پنجابیوں سے اچھے لہجے میں رس گھول لیتے ہیں۔ یہ سنناتھا بمصداق ‘اندھے کو کیا چاہئیے دو آنکھیں’ اور یہاں تو چار چار آنکھیں مجھے  بینائی دینے کو تیار تھیں ۔ پس پہلی نشست 18 اگست سن دو ہزار پندرہ میں منعقد ہوئی اور ہنوز یہ چراغ روشن ہے ہاں کبھی کبھی لَو تھرتھراتی ضرور ہے لیکن بجھتی نہیں۔ جب ذکر چل پڑا ہے تو آج ان احباب کا تذکرہ بھی ہو جائے کہ جن کی بابت اردو شعر و سخن کی یہ نگری آباد و شاد ہے  اور کوشش کی جائے گی کہ ان احباب کامختصر تعارف چنیدہ اشعار کے ساتھ پیش کیا جائے۔

امتیاز وفا: ‘اردو اکیڈمی نیپال’ کے حالیہ صدر نشیں جناب امتیاز وفا شخصی اعتبار سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پیشے کے اعتبار سے تاجر ہیں اور دل کے جملہ معاملات میں غنی ہیں۔ لڑکپن میں قلم و قرطاس سے جڑے ، جو بیتا من و عن درج کرتے رہے یہاں تک کہ ایک جوہر شناس نے ان کی خود سے شناسائی کروا دی اور ساتھ ہی ساتھ ان کے شاعر ہونے کی  تصدیق بھی کر ڈالی۔ تب سے اب تک  ملکی و غیر ملکی ان گنت مشاعروں میں شرکت  و صدارت کر چکے ہیں۔ آسان لفظوں میں بڑے سے بڑے مضامین یوں پیش کر جاتے ہیں کہ سننے والے لطف لئے اور داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔بے لوث  محبت، ہجر و فراق، بے وفائی، جہاں شناسی، تصورِ انسانی کا دوسرا رخ اور  پہلو در پہلو معنویت سے بھرے  اشعار کی ان شاعری کا خاصہ ہیں ۔چند اشعار دیکھئے؛

ٹھیک تو ہم بھی نہیں تھے ٹھیک تھے تم بھی نہیں

دو بُرے لوگوں کا ملنا دل لگانا ٹھیک تھا؟

سوال مجھ سے تھا اگر جواب مجھ سے پوچھتی

زمانے کو بتا گئی مجھی سے کیوں چھپا گئی

یہ بات عام تھی تو پاس میرے آئے کیوں

میں نام کا ہوں وفا میں وفا نہیں کرتا

وہ اپنی ساری چیزوں کو بہت محفوظ رکھتا ہے

مجھے اپنا بھی کہتا ہے حفاظت کیوں نہیں کرتا

ثاقب ہارونی: آپ نیپال میں اُردو کا ایک اور اہم نام ہیں۔ موصوف بھی ‘اردو اکیڈمی نیپال ‘کے صدرِ سابق ہیں۔ سیاست میں بھی ہنر آزمایالیکن عوام الناس نے سیاست سے زیادہ ان کی شاعری کے صندوق میں ووٹ ڈالے ۔ سماجی کاموں سے بھی  دلچسبی رکھتے ہیں۔ تحت اللفظ کی بجائے اشعار ترنم سے پڑھتے ہیں اور اپنی مسحور کن آواز سے شاعری کو دو آتشہ کر دیتے ہیں ۔محفلیں لوٹ لینا اور دلوں کو جیت لینے کا نام عبدالمبین خان المعروف ثاقب ہارونی ہے۔شاعری میں تراکیبی جدت، افکار کی نت نئی تشریحات اور زبان و بیان میں روانی موصوف کی شاعری کے اہم پہلو کہے جاسکتے ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو؛

قبائیں بھی رفو کرناتم اپنے چاک دامن کو

تمہارے درمیاں دستِ ہنر میں چھوڑ جاؤں گا

عقیدت میں یہاں دھوکے پہ دھوکہ ہے

مجھے میرا ہی بھائی دے رہا ہے

کوئل نہیں مایوس خزاؤں کے اثر سے

بلبل بھی کرے آج بہاروں پہ بھروسہ

میں اک زمین ہوں آ مجھ کو آسماں کردے

عطا نصیب کو پھرضوئے کہشاں کردے

سحر محمود: نوجوان اور ابھرتے ہوئےشعراء  میں ایک خاص نام فضل الرحمن کا بھی ہے جو سحر محمود کے قلمی نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔خود کلامی کرتے کرتے کیا کہہ جائیں نہیں معلوم، خبر ہونے پر خوب داد و تحسین سمیٹتے ہیں۔سحر محمود نے شخصیت کے ساتھ گفتار و مزاج بھی شاعرانہ پایا ہے، موقع بہ موقع بر محل اشعار کہنے میں ان کا کوئی ثانی  نہیں۔ "جہانِ آرزو” کی اشاعت پر صاحبِ کتاب ہونے کا اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔سحرمحمود ایک جواں سال، مستعد اور اپنی اقدار سے جڑے  نابغہ روزگار فرد ہیں۔ ان کے "جہان آرزو” کو پڑھ کر یہ یقین ہو جاتا کہ یہ جہاں فانی  ہے اوردنیا کی رنگینیاں عارضی  ہیں مگر یہ تاثر مایوسی کو ہرگز جنم نہیں لینے دیتا بلکہ دل میں وہ پاکیزہ ارتعاش پیدا کرتا ہے جو مخلوق کو خالق سے ہم آہنگ کردے۔ گویا یہ "جہانِ آرزو” فقط  نام کا ہے کہ  جہاں آرزوئیں  نہ بے لباس ہیں اور نہ بے لگام۔ فکروفن  دیکھئے؛

میرا تو بس ایک پیغام ہے

خود کشی مردہ دلوں کا کام ہے

یقیناً یہ جہان فانی ہے لیکن

جہانِ آرزو فانی نہیں ہے

وہ ہم سے بدگمان ہیں کچھ اس طرح سحر

بنتی نہیں ہے بات وضاحت کئے بغیر

ناکامیوں میں خود ہیں برابر کے ہم شریک

تقدیر  پہ  ہی  بات  میاں!  منحصر  نہیں

جمشید انصاری:ایک عرصہ سرزمینِ  قطر میں معاشی جدوجہد میں مصروف رہنے کے بعد جب وطن واپس لوٹے تو صاحبِ نصاب ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ کتاب بھی قرار پائے۔گو بیان میں زور ہے  لیکن سہلِ ممتنع میں کمال رکھتے ہیں ۔ جمشید انصاری ایک ماہر فیشن ڈیزائنر بھی ہیں اور ان کی یہی خوبی بحروں، شعروں ، نظموں اور غزلوں میں بھی در آتی ہے ۔ نہایت نفاست سے افکار کی کانٹ چھانٹ کرتے ہوئے زمانے کے نشیب و فراز کی بُنت کرتے ہیں۔ان کی شاعری پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ محبتوں میں بھی بے لوث محبت کے مقلد ہیں۔ یوں لگتاہے کہ کہہ رہے ہوں کہ محبت بس ایک بار ہوتی ہے جبکہ  بار بار محبت  ہونا پہلی محبت کاہی اوتار ہے۔ جب طنز و مزاح اور چست فقرہ بندی سے اشعار کہتے ہیں تو سامعین اپنے ہی ہونٹ دانتوں میں دبا کر کاٹ لیتے ہیں۔

زورِ بیان دیکھئے ذرا؛

جس کو کھونا تھا کھو نہیں پائے
جس کا ہونا تھا ہو نہیں پائے
خدا کے واسطے ایسا گناہ مت کرنا

دلِ تباہ کو تم اور تباہ مت کرنا

 

سکون دل کا چاہتے ہو اگر دنیا میں

کسی حسین کی چاہت کی چاہ مت کرنا

(جاری ہے)

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter