آ ج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا

ڈاکٹر محمد اورنگ زیب الکعبی

29 جولائی, 2019

حضر ت ابراہیم علیہ السلام محض ایک نبی ہی نہیں تھے بلکہ اپنے آپ میں ایک مکمل امت تھے،قرآن مقدس میں مختلف مقامات پر ایجاز و تفصیل کے ساتھ کم وبیش ۹۶ بار انکا نام آیاہے اور ایک نمازی اپنی پنچ وقتہ نماز میں کم از کم ۵۴بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کانام لیتاہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ان میں وہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں جو ایک بندہ خدا میں ہونی چاہئیں،انہوں نے اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں رب العالمین کی رضا و خوشنودی کو اولیت درجہ دیا اورا یک لمحہ بھر کیلئے بھی اللہ کے اوامرو نواہی سے سرمو انحراف نہیں کیا بلکہ اپنی پوری زندگی اپنے مالک حقیقی کے دین کی نذر کردیا اور جس وقت جس طرح کی قربانی ان سے مطلوب تھی پیش کیا،اور صبرو شکیب و ہمت و عزیمت کے پہاڑ اور چٹان بن کر راہ خدا میں ڈٹے رہے، اللہ کے کلمہ کو بلند کرتے رہے، توحید کا اعلان و پر چار کرتے رہے، اور کفر و شرک کا مقابلہ کرتے رہے،تو اللہ تبارک وتعالی نے ان کے بعض واقعات کو رہتی دنیا تک تمام مسلمانوں کیلئے اسوہ اور سنت بنادیا جسکی ادائیگی پر انگنت اجر وثواب ہے اور ادائیگی حج اوررسم قربانی انہیں واقعات کا ایک مظہر ہے۔
اسلام کی دواہم عیدوں میں سے ایک اہم عید،عید الاضحی یا عیدقرباں بھی ہے جو دس ذی الحجہ کو ساری دنیا میں منائی جاتی ہے جس دن سارے مسلمان مر د،عورتیں،بچے،جوان،امیرو غریب آزاد و غلام سب اپنی جذبات مسرت اور احساس وارفتگی کا اظہار کرتے ہیں،اپنی وسعت کے مطابق وہ جانور جنہیں قربانی کا حکم ہے ذبح کرتے ہیں اور رضائے الہی اور اسکی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔دسویں ذی الحجہ کو رسم قربانی محض جانوروں کا ناحق خون بہانا ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کو انجام دیتے وقت اس حقیت کا سچائی کے ساتھ اعتراف کرنا ہے کہ آج ضرورت پیش آئی ہے تو ہم رضائے الہی کی خاطر اس محبوب جانور کو ذبح کرتے ہیں۔اگر کہیں خدا کے راستے میں ہمیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑے،اپنی اولاد کی قربانی پیش کرنی پڑے،اپنی بیوی بچوں کی قربانی،اپنے مال وجائداد اور جاہ و حشمت کی قربانی پیش کرنی پڑے تو ذرہ برابر پیچھے نہیں ہٹیں گے،چنداں گریز نہیں کریں گے بلکہ ہمہ وقت تیا ر رہیں گے، دوسری جانب یہ قربانی اس بات کی بھی علامت ہے کہ جب ایک مومن بندہ ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان اور ذبح کرتاہے توگویا وہ ساتھ ہی اپنی انا،اپنی خودی،تکبر،بغض و حسد،عداوت و دشمنی،جبرو اکراہ،کو بھی ذبح کر ڈالتا ہے اور اپنے رب کے سامنے ایک بندہ عاجز کا نمونہ پیش کرتاہے اور صرف اسی کی عبودیت وبندگی تسلیم کرتاہے۔
عبادات خواہ جو بھی ہوں انکا مقصود و مطلوب اللہ کی رضا اور تقرب حاصل کرناہے۔اور ان میں سے ہر ایک عبادت بندۂ مومن سے کسی نہ کسی طور پر قربانی چاہتی ہے،کوئی عبادت مال کی قربانی چاہتی ہے،کوئی عبادت انا اور خودی کی قربانی چاہتی ہے،کوئی عبادت بعض جائزخواہشات کو دبانے اور کچلنے کی قربانی چاہتی ہے،اور اس ضمن میں فطرت انسانی کا یہ تقاضہ ہیکہ ایک عبادت ایسی ہوجس سے خالص اللہ کا تقرب مقصود ہو اور وہ عمل قربانی ہے قربانی کا یہ عمل جتنا اہم ہے اتناہی نازک بھی ہے چونکہ اس میں ایک بندۂ مومن اپنی زندگی کے سب سے،قیمتی متاع (اپنی جان و نفس) اور بوڑھاپے میں سہارا دینے وا لے اکلوتے بیٹے کو اللہ کی محبت میں قربانی کرنے کا حوصلہ رکھتاہے،اور اس حقیقت اور سچائی کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ قربانی تمام عبادات کی جامع،ان کا جوہر اور خلاصہ ہے،جس میں تقرب الہی،محبت خداوندی،جذبہ جانثاری،جذبہ فدایت،جذبہ تشکر،جذبہ خاکساری اور حسن عملی سبہی کچھ شامل ہیں،قرآن و حدیث میں قربانی کیلئے کئی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں مثلا سورۃ البقرۃ آیت ۴۹۱ میں قربانی کے اس مستحسن عمل کو ”الھدی“ اور ”نسک“ سے تعبیر کیا گیا ہے اس طرح سورہ آل عمران آیت ۳۸۱اور سورۃ المائدہ آیت ۷۲ میں قربان اور قربا قربانا کے ذریعہ اس عمل کی وضاحت کی گئی ہے،ساتھ ہی سورۃ الحج آیت ۴۳ میں ”منسکا“ کے ذریعہ اسکی عظمت کو بلند کیا گیا ہے،اسی طرح سورۃ الصافات آیت ۷۰۱ میں ”بذبح عظیم“ سے قربانی کے معنی ومفہوم کو پیکر حسن بتایا گیا ہے

اور اس سے آگے سورۃ الکوثر آیت ۲ میں ”النحر“ سے اس عمل کو موسوم کیا گیاہے جبکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں متعلقہ عید کو ”عیدا لاضحی“ اور قربانی کو ”اضحیۃ“اور ”اضاحی“بتایا گیا ہے،گویا اس عبادت کیلئے قرآن و حدیثمیں کل چھ اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جنکی غرض وغایت اس عبادت کی اہمیت و افادیت کو زمانے بھر پر اجاگر کرنا اسکی، فطری کشش کو برھانا ہے،جبکہ اس کے برخلاف اسلام کا پانچواں رکن ”حج“اس عبادت کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وسنت میں صرف ایک ہی اصطلاح متداول ہے،میں کل چھ اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جنکی غرض وغایت اس عبادت کی اہمیت و افادیت کو زمانے بھر پر اجاگر کرنا اسکی، فطری کشش کو برھانا ہے،جبکہ اس کے برخلاف اسلام کا پانچواں رکن ”حج“اس عبادت کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وسنت میں صرف ایک ہی اصطلاح متداول ہے،اسکی اہم وجہ یہ ہیکہ ”حج“ایک ایسی عبادت ہے اور اسلام کا ایسا رکن ہے جس سے کسی بھی زمانے میں کسی بھی مرد مومن کیلئے انکار ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے جبکہ قربانی کی اہمیت کو پوری انسانی آبادی میں بتلانے کیلئے دلائل و براہین کی ضرورت پیش آئے گی جسکا انتظام اللہ تبارک وتعالی نے خود ہی کردیا ہے، اس کے علاوہ قربانی کے جانور کیلئے سورۃ البقرۃ آیت ۴۹۱ میں ”الھدی“ بیایا گیا ہے اسی طرح سورۃ المائدۃ آیت ۴۹ میں القلائد سے تعبیر کیا گیا ہے اور سورۃ الحج آیت ۶۳ میں اسے ”البدن“کہا گیا ہے گویا قربانی کے جانور کیلئے تین اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو اسکے ادبی ظروف و مظروف دونوں کو شامل کرکے قربانی کی اہمیت و افادیت اور حکمت و معنویت کو دوبالا کرتی ہیں۔جس طرح اسلام میں قربانی کیلئے ایک سے زائد اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں اسی طرح قربانی کے جانوروں کیلئے بھی چند خاص اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں بعینہ اسی طرح قربانی کے جانوروں کے احترام میں بھی قرآن متعدد مقامات پر گویا ہے چنانچہ سورۃ الحج آیت ۶۳ میں اللہ رب العز ت فرماتاہے”والبدن جعلنا ھا لکم من شعائراللہ“ یعنی قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیئے شعائر اللہ بنادیا ہے اور مزید سورۃ الحج ہی میں مذکورہ آیت سے قبل اللہ رب العالمین فرماتاہے”و من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب“ جو اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ ا س کے دل میں تقوی کی علامت ہے اور اس سے بھی قبل نفس سورہ کے اندر آیت ۰۳ میں اللہ تعالی فرماتاہے ”ومن یعظم حرمات اللہ فھو خیر لہ عند ربہ“ یعنی جو حرمات اللہ کی تعظیم کرے تو وہ اس کے رب کے نزدیک اس کے اپنے حق میں بہتری کا ذریعہ ہے،یہاں حرمات اللہ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کے احترام کا اللہ رب العز ت نے حکم دیا ہے۔
مثلا حرم، مسجد حرام،اشہر حرم،ھدی،او ر قلائد و غیرہ،علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ ”حرمات“ حرمۃ کی جمع ہے اور اس سے مراد اللہ تعالی کا ہر وہ حکم ہے جسکو بجالانا ضروری ہے،چاہے وہ حج سے متعلق ہو یا کسی دوسری عبادت سے،مقصد یہ کہ جو شخص گناہوں سے اجتناب کرے گا اور اپنے دل میں احساس رکھے گا کہ ان کا ارتکاب اللہ کے احکام کی بڑی خلاف ورزی ہے تو اللہ اس سے اسکا اجر عظیم عطا فرمائے گا (تیسرالرحمن لبیان القرآن ج ۲ /تالیف۔ڈاکٹر محمد لقمان سلفی،ص۵۵۹) ”شعائر“ شعیرہ کی جمع ہے،اس کا اطلاق ہراس چیز پر ہوتاہے جسمیں اللہ تعالی کی کوئی نشانی ہو،اس لیئے ”شعائر اللہ“سے مراد اللہ کے دین کی نشانیاں ہیں،اور قربانی کے جانور اس میں بدرجہ اولی داخل ہیں،اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے لئے ایسے جانو ر حاصل کئے جائیں جو بڑے،خوبصورت،موٹے تازے اور قیمتی ہوں،اور خریدتے وقت زیادہ مول تول نہ کرے،صحابہ کرام اور اسلاف عظام تین چیزیں خریدتے وقت زیادہ نہیں گھٹاتے تھے،ھدی،قربانی کا جانور اور غلام (ایضا صفحہ ۵۵۹)اللہ کے دین کی علامتوں کی تعظیم و تقدیس کا معیار تقوی ہے یعنی ایسا کرنا اہل تقوی کاکام ہے،چونکہ تخلیق انسانی کا مقصد اللہ کی عبادت و بندگی ہے اور اس عبادت و بندگی کا اصل مظہر تقوی ہے اور تقوی کی بلندی اصل راہ خدا میں اپنی قیمتی جان نچھاور کرنا اوراس راہ میں ہمیشہ جذبہ ایثار و قربانی کو مقدم رکھنا ہے، قربانی کے متعلق یہ معلوم ہیکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار ہے انہوں نے اپنے چہیتے فرزندارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا ارادہ کرکے رہتی دنیا تک تمام مسلمانوں کیلئے اپنے رب کے سامنے تشکر و امتنان اور عبودیت و بندگی بجا لانے کا وسیع دروازہ کھو ل دیا ہے یہ قربانی کیا ہے؟ اس کے متعلق حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے حضور ﷺ سے قربانی کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے اس کے جواب میں کہا ”یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور ان کے اس واقعہ کی یاد گار ہے جو آج سے چار ہزارسال قبل مکہ کے اطراف میں پیش آیا تھا،جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخ انسانیت کا منفرد واقعہ ہے،جسکی نظیر آج تک دنیا کی دوسری قوم پیش کرنے سے عاجز وقاصرہے کہ رب کی اطاعت و فرما برداری کا ایسا مضبوط جذبہ دل میں پنہاں تھا کہ ایک حکم اور اشارہ پر اپنی سب سے قیمتی متاع حیات جو مدتوں کی آہ سحر گاہی کے بعد حاصل ہواتھا راہ خدامیں قربان کرنے سے دریغ نہ کیا اور آخر امتحان میں ممتاز نمبرات سے کامیاب ہوکر دنیاکو اپنی فدائیت کا سچا نمونہ پیش کیا مولانا عبدا لماجد دریابادی لکھتے ہیں۔”دنیا کی تاریخ میں کب کسی عزیز نے عزیز سے اپنی اولاد کو قتل و ذبح کے باب میں مشورہ کیاہے؟کسی شفیق اور عاشق زار باپ نے اپنے لخت جگر کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے،ہر صاحب اولاد ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے،بیٹا بھی کس باپ کا تھافورا آمادہ ہوگیا اورعرض کیاکہ: ”ائے ابا جان آنکھ پر پٹی باندھ لیجئے خدا معلوم دل پر کون سے پتھر کی سل رکھ کر حلق پر چھری چلائی گئی“ (تعمیر حیات ۱۶۹۱)
خدا وند قدوس کی رضاجوئی کیلئے اپنے محبوب فرزند ارجمند کو پیشانی کے بل گراکر انکے گردن پر چھری پھیڑنا،اطاعت گزاری کا یہ سماں یقینا زمین و آسمان کیلئے انو کھا تھا،پوری کائنات ششدر تھی،فرشتے اپنے پروں کو سمیٹ کر،چرند پرند اپنی پرواز چھوڑکر۔اوراق شجر اپنی جنبش ترک کرکے حیران کن منظر کو دیکھنے میں محو ہوگئے تھے کہ حضرت ابراہیم مسلسل چھری چلارہے ہیں لیکن حلقوم ہے کہ کٹتاہی نہیں،کیوں کہ یہاں حضرت اسماعیل کا خون بہانا مقصود نہ تھا بلکہ جزبہ عبودیت و بندگی اور عشق ومحبت کی ایک آزمائش تھی۔مولانا سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں کہ: ”یہ قر بانی کیا تھی یہ محض خون و گوشت کی قربانی نہ تھی بلکہ روح اور دل کی قربانی تھییا ماسوااللہ اور غیر کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی،یہ اپنے عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کردینے کی نذرتھی،یہ خد اکی اطاعت،عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا،یہ تسلیم و رضااور صبر و شکر کا وہ امتحان تھا جسکو پوراکیئے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی،یہ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا نہ تھا،بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات،خواہشات،تمناؤں اور آرزؤں کی قربانی تھی اورخدا کے سامنے اپنے ہرقسم کے ارادے اور مرضی کو محروم کردینا تھا،(سیرۃ النبی:۷/۱۵)اس حقیقت کو جان لینے کے بعد اب تمامستطیع اور اصحاب ثروت کا دینی و اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ ہر سال دس ذی الحجہ کو سنت ابراھیمی کو زندہ کرکے فدائیت اور سراپا بندگی کا ثبوت دیں،اپنے ایمان اورکمز ور جذبۂ ایثار کو دوبارہ مضبوط بنائیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ قربانی کایہ عمل اتنا عظیم اور اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ذرے کو آفتاب اور تاریکیوں کو روشن کردیتاہے،ور جس دل میں بھی ایثار و قربانی کا یہ جذبہ پنہاں ہوگیا گویا کہ اسکی بگڑی ہوئی تقدیر سنور گئی،اس لیئے قربانی کے اس پیغام کو بہت حد تک سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چھری صرف جانوروں کی گردن ہی پر نہ چلائی جائے بلکہ اپنے صنام خیالی اور رتماثیل خیالی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیں،سود ائے خام اور تمنا ئے ناتمام کو دل سے نکال دیں اور صدق دل سے اللہ کی بلندی وپاکی بیان کرتے ہوئے قربانی کے عمل کا مظاہرہ کریں،در اصل یہی قربانی کہلانے کے مستحق اور مطلوب بھی ہے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter