مسجد میں عورتوں کا داخلہ: غلو نہ بھیجنے میں ہو اور نہ منع کرنے میں

ابو اشعر فھیم

11 اکتوبر, 2018

ایسے معاشرے میں جہاں مسجد میں عورتوں کا داخلہ جرم عظیم سمجھا جاتا ہو ایسے معاشرے میں اصل اسلامی تعلیمات کو مناسب طریقے سے حکمت کے ساتھ پیش کرنا چاہیے.
اور اگر کسی مسجد میں عورتوں کے لیے بھی نماز کا انتظام و اہتمام ہو تو اشتہار و خبر کرنے میں کوئی حرج نہیں.
غلو نہ بھیجنے میں ہو اور نہ منع کرنے میں.
اسی طرح انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ بازار دنیا کی سب سے خراب جگہ ہے، اسکول بھی مسجد سے بہتر جگہ نہیں ہے، اجلاس، کانفرنس اور وہ تمام جگہیں بھی مسجد سے بہتر نہیں ہوسکتی ہیں.
عورت کی افضل ترین نماز بلا شبہہ گھر میں ہی ہے.
لیکن شریعت نے انہیں مسجد آنے پر قدغن نہیں لگائی، ان کی خواہش کا احترام کیا، عید گاہ میں تو انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ حاضر ہونے کا امر اور حکم فرمایا، یہاں تک کہ "حائضہ عورتوں ” کو بھی مصلی اور "عید گاہ میں ٰ آنے کے لیے کہا گیا تاکہ کم سے کم وہ نماز میں تو نہیں لیکن مسلمانوں کی دعاؤں میں تو شریک ہوجائیں.
شرعی رخصتیں جب انہیں نہیں ملیں گی تو وہ کہیں نہ کہیں سے اپنی مذہبی پیاس بجھا لیں گی،
چاہے درگاہ ہو، مزار ہو، خانقاہ ہو، تبلیغی مستوراتی چلے ہوں، اجتماع ہو، کانفرنس ہو، یا بناتی دعوتی مشن ہو.
ہمارے شہر میں تقریبا دس سے زائد بڑی مساجد میں عورتوں کی نماز تراویح کا اہتمام ہے، ان کے دروازے اور جائے صلاۃ الگ الگ ہیں.
وہ پورے خشوع وخضوع کے ساتھ پابندی سے نماز پڑھتی ہیں، راستے، پُر امن اور ماحول سازگار ہے، بعض مساجد میں پچھلے پچاس سالوں سے تراویح اور جمعہ کا نظم ہے. اور الحمد للہ نہایت ہی احسن طریقے سے جاری و ساری ہے_
مردوں اور عورتوں کی شرکت و تعداد کا تناسب بعض بڑی مساجد میں ففٹی، ففٹی ہوتا ہے_
عورتیں نہایت ذوق و شوق سے تراویح پڑھنے آتی ہیں_ اکثر شادی شدہ نوجوان اپنی بیویوں کے ساتھ آتے ہیں،بعض لوگ اپنی بیوی، بچوں اور گھر کی دیگر خواتین کو بھی ساتھ لیکر گاڑی سے آتے ہیں.
و للہ الحمد والشکر.
کسی پر کوئی جبر نہیں کہیں کوئی اشتہار نہیں
.
مسجد میں جگہیں مختص ہیں اور یہ بات معروف و مشہور بھی ہے.

ابو اشعر فھیم

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter