*’ہو جِس سے اختلاف، اُسے مار ڈالئے‘*

’خوداحتسابی‘‘ *سید حسین شمسی*

11 اگست, 2018
این ڈی ٹی وی کی ماب لنچنگ اسٹنگ آپریشن سیریز ملک کیلئے ہی نہیں بنی نوع انسانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس ہجومی تشدد کا نشانہ درحقیقت مسلمان نہیں، ہندوستان ہے۔ اسٹنگ آپریشن کے دوران ایک ماب لنچر کی منفی سوچ اور اس کے تیور تو ذرا دیکھئے۔۔۔۔
’’ہاں ہم بہت خوش ہیں قاسم قریشی کا قتل کرکے، ہمیں فخر ہے کہ ہم نے یہ ’پُنیہ‘ کا کام انجام دیا، قاسم مرنے سے پہلے پانی پانی چلاتا رہا لیکن ہم نے اسے پیاسا ہی مرنے دیا، ہمیں کوئی پشچاتاپ نہیں،  یہ کام نہ ہوتا تو پشچاتاپ کرتے، جب جیل گئے تو تھوڑی ہیبت ہوئی لیکن جب جیلر نے پوچھا کہ کس جرم میں آئے ہو تو ہم نے کہا 302 اور 307 کے تحت ایک فل مرڈر اورایک ہاف مرڈر اس نے ہماری گائے کاٹی اور ہم نے اس کا گلا کاٹ دیا، لوگوں کوجیل جاکر بہت دکھ ہوتا ہے لیکن جیل میں ہمارا سواگت کیا گیا اورجب ضمانت پرجیل سے رہا ہوئے تو ایک بڑی تعداد ہمیں لینے آئی اورراکیش سسودیا زندہ باد کے نعرے بلند ہوئے، سرکار کے اشارے پر ہمیں پولیس کا سمرتھن حاصل رہا، ہماری ڈھارس کھل چکی ہے، اب ایک فوج تیار ہوگئی ہے، جہاں کہیں بھی گئو ہتیا کی خبر ملے گی ہم ان ’ہتیاروں‘ کی گردن کاٹنے کا کام کریں گے، گائے کے لئے ہم ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کرنے کے لئے بھی تیار ہیں‘‘۔
یہ نفرت آمیزاور انسانیت کو شرمسار کرنے والے جملے کسی فلم کے ڈائیلاگ نہیں ہیں، یہ اس راکیش سسودیا کے ہیں جس نے ’’ماب لنچنگ قتل سیریز‘‘ کے تحت قاسم کے قتل میں کلیدی رول ادا کیا۔ عدالت میں اسے ضمانت اس بیان پر مل گئی کہ جائے واردات پر وہ تھا ہی نہیں، لیکن ایک اسٹنگ آپریشن کے دوران اس نے شیخی میں آکر اپنے سارے گناہ قبول کرلئے اورمستقبل کیلئے اپنے ناپاک منصوبے کا اظہار بھی کیا۔ راکیش کا لہجہ اس کے تیور بتارہے ہیں کہ اس کی پشت پناہی کوئی بڑی سیاسی پارٹی یا تننظیم کررہی ہے اور جو لوگ اسے جیل سے گھر تک نعرے بازی کرتے ہوئے لے گئے یقیناً ان کی پہنچ سرکار کے بہت اندر تک ہے۔ ان ہجومیوں کی ہمت تو دیکھئے! یہ لوگ اس طرز کے تشدد آمیز حملے رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن کے اجالے میں اور پولیس کی موجودگی میں کر جاتے ہیں، بلکہ کئی بار تو ایسا ہوا کہ پولیس اسٹیشن اور عدالت کے سامنے بھی ماب لنچنگ کے ذریعہ قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ 
آج حالات کچھ ایسے بن پڑے ہیں کہ تجزیہ نگار و تبصرہ نگار لکھنے پر مجبور ہیں کہ ’آپ گلے میں گیروا رومال یا گمچھا ڈال لیں، گیروا ٹی شرٹ اور ماتھے پر قشقہ کھنیچ لیں پھر کچھ بھی کرتے پھریں، کھلے عام قتل کریں، لوٹ پاٹ اور توڑپھوڑ کریں سب کی آزادی ہے۔ گیروا رنگ کسی زمانے میں شانتی کا ’پرتیک‘ ہوا کرتا تھا، اب دہشت وجنگجوئیت کی علامت بن گیا ہے۔ دورحاضر کا فنکار اگر رام کی تصویر بناتا ہے تو اسکے ہاتھ میں تیرکمان دینا نہیں بھولتا اور رام کے سب سے بڑے بھکت ہنومان کو اپنے زورِتصور سے یوں درشاتا ہے جیسے وہ اپنے پیروکاروں کو غصے میں دیکھ رہے ہوں، ان کے اَبرو چڑھے ہوئے ہوں، ان کی آنکھیں لال ہوں، مانو کہہ رہے ہوں کہ ’تم کس قدر بزدل ہو‘۔ رام چندر نے تخت وتاج پر 14 سال کا بن باس قبول کیا، انہوں نے اپنے بھائیوں سے جنگ نہیں کی، لیکن آج اسی رام کے ماننے والے نہ صرف یہ کہ اقتدار میں آگئے ہیں بلکہ حکومت میں بنے رہنے کیلئے ان کے نام پر قتل وقتال کر رہے ہیں۔ جبکہ رام چندر جی نے اپنی زندگی میں کسی بے گناہ کا قتل نہیں کیا۔ 
پہلو خان، اخلاق، جنید، قاسم اوررکبرجیسے بےگناہوں کو  ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ہجومیوں کے ذریعہ ان بے گناہوں کا قتل ہوتا ہے، لیکن  پولیس کی کمزور گرفت و قانونی لچک کے سبب ان پر کوئی مضبوط شکنجہ نہیں کسا جا سکا، نتیجتاً پہ درپہ ماب لنچنگ کے واقعات رونما ہوئے اور جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے اس کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق 2010 سے اب تک گائے کو لے کر 85 حملے درج ہوئے ہیں، جس میں سے 98 فیصد واردات 2014 کے بعد ہوئی ہیں۔ ان حملوں میں 56 فیصد مسلمان شکار ہوئے اورمرنے والوں میں بھی 88 فیصد مسلمان ہی تھے۔ جبکہ سال رواں 2018 میں اس طرح کے حملوں میں جتنے لوگ بھی مارے گئے سب کے سب مسلمان ہی ہیں۔ جب معاملات کسی خاص گروپ کے خلاف ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ تختہ مشق مسلمانوں کو ہی بنایا جانا ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرتشدد بھیڑ کہاں سے پیدا ہوئی،  خود بخود یوں ہی تو پیدا ہو نہیں گئی، یقیناً اس کے پیچھے عداوت و نفرت کا زہر کار فرما ہے، ایک منظم سازش کے تحت ہجومی تشدد کے قائد پیدا کئے جارہے ہیں، ایک خاص گروپ کی جانب سے ایسے لوگوں کی قانونی پیروی کی جاتی ہے اور رہائی کے بعد ان کو اعزاز دیکر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس چلن کو دیکھتے ہوئے ’نوجوانوں‘ نے بہت ہی کم وقت میں شہرت اور سیاسی منصب حاصل کرنے کا یہ آسان طریقہ اپنا لیا کہ اپنے اندر ایک مخصوص طبقہ کے تئیں نفرت کا جذبہ پیدا کرو، کسی ہجومی تشدد کا حصہ بن کر بے گناہ پرحملہ کرو، اس کی داڑھی نوچو، اس کو اوراس کے مذہب کے خلاف نازیبا وناپاک جملوں کا استعمال کرو نیز اس پورے واقعہ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردو، پھر پولس اس تک پہنچے یا نہ پہنچے مذہبی منافرت کا کھیل کھیلنے والے اور نوجوانوں کو آلہ کار بنانے والے ان کو ضرور گود لے لیں گے۔ 
یہ ظالمانہ واقعات روز افزوں بڑھتے جارہے ہیں، لیکن نہ مجرمین کیفر کردارتک پہنچ رہے ہیں اور نہ ہی انتظامیہ سخت رویہ اختیار کر رہا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ 17 جولائی کو ماب لنچنگ کے خلاف سپریم کورٹ نے ایک گائڈ لائن پیش کی اور پولیس وخفیہ ایجنسیوں کو انتباہ دیتے ہوئے یہ تک سمجھایا کہ اس طرح کے واقعات کے خلاف ان کا رویہ کیسا ہونا چاہئے، پھر بھی پولیس انسان کے بجائے جانور کو بچاتی نظر آئی۔ پولیس وانتظامیہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کو اتنا غیر اہم جانا کہ جس دن سپریم کورٹ نے سرزنش کی اس کے 4 دن بعد ہی الور میں گئو رکشا کے نام پر ایک بھیڑ رکبر کو جان سے مار دیتی ہے اور پولیس مجرمین کے خلاف سخت دفعات لگانے سے عاجز ہے۔  
ایسے پُرآشوب ماحول میں لگتا ہے کہ ملک میں مختلف رنگ ونسل اور سینکڑوں مذہب وعقیدہ کے ماننے والوں کی جو یگانگت وامتیازیت تھی وہ کافور ہوتی جارہی ہے اور زمانہ قدیم سے چلی آرہی بقائے باہم کی تاریخ مسخ و تار تار ہوگئی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذہبی منافرت پر مبنی یہ واقعات ایک طرح سے ہندوستانیت کی نفی کر رہے ہیں۔  غور کرنے والی بات یہ ہے کہ واقعات کو انجام دینے والے لوگ زیادہ برے ہیں کہ دیکھنے والے، یا پھر برداشت کرنے والے۔ آخر بحیثیت ہندوستانی ہمارے برداشت کی وہ آخری حد کیاہے؟ ہم بم دھماکوں، انتہائی سنگین حادثات کے بعد بھی اپنے دفتروں اور کاروبار کیلئے نکل پڑتے ہیں، جسے ہم ’اِسپِرٹ‘ کا نام دیتے ہیں، کہیں یہ اِسپرِٹ ہماری بے حسی تو نہیں؟ واقعات کو نیوز چینلز پر دیکھنا، اخبارات میں پڑھنا، ہمارے معاشرے کے تِل تِل ٹوٹنے میں کہیں غیر ارادی طور پر اپنا حصہ تو نہیں ڈال رہے ہیں؟ 
ملک میں ایک خاص خیال کے حامل گروہ کو ایک خاص قسم کے ’گروہ‘ (یہاں انہیں مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں) کے خلاف صف آراء کیا جارہا ہے، ان میں جنگجوئیت پیدا کی جارہی ہے، یقیناًیہ بہت تھوڑے لوگ ہیں اور ’سماج‘ میں نہیں رہتے، ان طاقتوں کی ریزرو فورس جو بیرکوں میں رہتی ہےاور خاص موقع پر باہر لائی جاتی ہے، ہمیں ان سے ہونے اور ہوسکنے والے نقصان کا اندازہ نہیں ہے۔ 
 کسی بھی ملک کو جب غلامی سے آزادی ملتی ہے تو اُسے خوشی ہوتی ہے، لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ آزادی کی حصولیابی پر ہمیں خوشی کے ساتھ غم واندوہ کا سامنا بھی کرنا پڑا، دونوں جانب ہزاروں جانوں کا اتلاف ہوا۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نےاس تلخ حقیقت کو بھلا دیا ہے، اس لئے بہتے انسانی خون پر دل رنجو وملول نہیں ہوتا۔  ہم کہ جنہوں نے جنگیں دیکھی ہی نہیں، جنگوں کو ’’رومانٹی سائز‘‘ کرتے ہیں۔ یورپ کے باسیوں سے پوچھ دیکھیں کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور اس کے نقصانات واثرات کیا ہوتے ہیں۔ طاقت حکومت آنی جانی شے ہے، اترپردیش اور دیگر ہندی بھاشی علاقوں میں ’’متحرک نوجوانوں‘‘ کو چاہئے کہ وہ کسی زمانے میں گجرات کے متحرک نوجوانوں سے حالات دریافت کریں، جو آج یا تو جیلوں میں ہیں یا پھر عدالتوں کی پیشیاں بُھگت رہے ہیں۔ آخر یہ سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ پیادہ، پیادہ ہی رہتا ہے اور ’’شاہ‘‘ حکومت کرتے ہیں۔ بہ زبانِ شاعر ؎ 
جنگ میں قتل سپاہی ہوں گے 
سرخرو ظلِّ الٰہی ہوں گے

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter