’نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ماہ رمضان آخری دس دنوں میں نماز، تلاوت قرآن، ذکر ودعا اور صدقہ وخیرات میں خوب حصہ لیتے تھے۔”

خصوصی پیشکش

6 جون, 2018

تمام تعریف اس رب تعالیٰ کے لیے ہےجو دعاؤں کو قبول فرماتا ہے، بندوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اور درود وسلام ہو اس ذات ِاطہر پر جس نے عشرۂ اخیرہ کو اطاعات وبندگیِ رب کے لیے خاص کیا۔

رمضان کے آخری دس دن اس ماہ کے سابقہ دنوں اور راتوں سے افضل ہیں۔

ان دس دنوں کی خصوصیات:
رمضان کے آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت میں زیادتی کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یوں بیان فرمایا ۔’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں جو محنت اور جدوجہد فرماتے وہ بقیہ دنوں میں نہیں فرماتے تھے ۔ ‘‘ [مسلم]صحیحین میں حضرت عائشہ سے مروی ہے: فرماتی ہے: ’’جب عشرہ ٔ اخیرہ شروع ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے، راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار فرماتے‘‘ [بخاری]

مذکورہ احادیث ِنبویہ عشرہ ٔاخیرہ کی فضیلت پر دلالت کرتےہیں، یقینا آخری عشرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادتوں میں خوب محنت کرتے تھے، آپ کا اس طرح کا معمول دیگر ایام میں نہیں دیکھا جاتا تھا، آخری عشرے میں آپ نماز، تلاوت قرآن، ذکر ودعا اور صدقہ وخیرات میں خوب حصہ لیتے تھے۔

ماہ رمضان کی محفلیں:
حافظ ابن رجب ؒ فرماتے ہیں:رمضان کے آخری عشرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ایسے معمولات ہمیں ملتے ہیں جو کہ رمضان کے پہلے عشرے میں کم ہی نظر آتے ہیں ۔۱۔راتوں کو جاگنا:

عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے شروع کے دنوں کی راتیں کچھ نماز پڑ ھ کر اور کچھ سوکر گزارتے لیکن جب عشرہ اخیر شروع ہوجاتا تو(مکمل شب بیداری) کیلئے کمر کس لیتے اور مستعد ہوجاتے ۔
۲۔ اپنے اہل کو جگانا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑ ے کو جو نماز ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اٹھایا کرتے تھے۔
۳۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمر کس لیتے تھے، اس سے مراد اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلیتے تھے، یعنی اعتکاف فرماتے تھے۔

اس عشرے کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اس عشرے میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه۔ [متفق عليه]

’’جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام(عبادت) کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘

عشرۂ اخیرہ میں بہت سے افراد بہت ساری غلطیوں کے شکار ہوتے ہیں،بعض لوگ عشرہٗ اخیرہ کی پہلی راتوں میں اتنی عبادت کرلیتے ہیں کہ بعد میں آہستہ آہستہ ان کی عبادت میں کمی ہوتی جاتی ہیں اور پھر عبادت کرنا ہی بند ہوجاتا ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے خلاف ہے، لہٰذا بندۂ مومن کو ان دنوں میں اللہ کی اطاعت کے لیے صبر سے کام لینا چاہیے، بخدا! یہ دن بہت ہی کم ہوتے ہیں، اور یہ راتیں بہت ہی مختصر ہوتی ہیں، ان دنوں اور راتوں میں کامیاب ہونے والے کامیاب ہوجاتے ہیں اور ناکام ہونے والے گھاٹے کے شکار ہوجاتے ہیں۔

شیخ ابن عثیمین ؒ فرماتے ہیں:

یہ بڑی محرومی اور کھلا گھاٹا ہے کہ بہت سے لوگوں کو تم دیکھوں گے جو اپنے قیمتی اوقات کو بے فائدہ چیزوں میں گذارتے ہیں، کھیل کود اور باطل کے کاموں میں راتوں کو جاگتے ہیں، جب عبادت کا وقت آتا ہے تو اسے چھوڑ کر سوجاتے ہیں، اور اپنے حصہ کے بہت سارے خیر سے محروم ہوجاتے ہیں، شاید کہ یہ موقع آئندہ انہیں نصیب ہوگا بھی یا نہیں، شیطان ان کے ساتھ کھیلتا ہے اور ان کے ساتھ مکاری کرتا ہے، اور انہیں اللہ کے راستے سے روکے رکھتا ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ[الحجر: 42]

’’جو میرے خاص بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں کہ ان کو گناہ میں ڈال سکے ہاں بَد راہوں میں سے جو تیرے پیچھے چل پڑے‘‘

عقلمند انسان شیطان سے دشمنی کا علم ہونے کےبعد اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست نہیں بناسکتا۔ چونکہ یہ بات عقل اور ایمان کے منافی ہے۔

پیارے مسلم بھائی!

اللہ سے ڈر! اس عشرے کے کسی لمحہ کو ضائع نہ کر، ذرا غور کر کہ ان دس دنوں کے اندر ایک ایسی رات ہے جس میں عبادت کا ثواب 83 برس سے زیادہ ہے۔۔ بھلا اس اجرِ عظیم اور ثوابِ کبیر سے تو غافل کیوں؟؟

بشکریہ محدث فورم

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter