، مدارس قیادت سازی کا مرکز ہیں

سراج احمد برکت اللہ فلاحیؔ

28 مئی, 2018

ارشاد باری :  ” وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَافَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ۔(التوبۃ:۱۲۲( ترجمہ : اور یہ کچھ ضروری نہ تھاکہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے ،مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ (وہ اللہ کی نافرمانی سے )پرہیز کرتے۔ تشریح: مفسرین کرام نے اس آیت کے دو مفاہیم بیان کیے ہیں ۔ (۱)اس آیت کا تعلق جہاد سے ہے اور مفہوم یہ ہے کہ تمام مسلمانوں سے یہ مطلوب نہیں ہے کہ سب کے سب ہی جہاد پر نکل جائیں بلکہ ہر علاقے ،قبیلہ اور جماعت سے کچھ لوگ ضرور نکلیں جو ضرورت کے لیے کافی ہوں۔ باقی مسلمان حصولِ علم میں مشغول رہیں اور دین میں تفقہ وبصیرت حاصل کریں اور جب وہ اپنے وطن واپس ہوں یا مجاہدین لوٹ کر آئیں تو ان کو علم وفقہ سے مستفید کریں،دین کی باتیں سکھائیں اور آخرت کے اچھے برے انجام سے واقف کرائیں۔ (۲)دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق علم سے ہے اور مسلمانوں کو حکم ہورہاہے کہ سب کے سب لوگ علم سیکھنے کے لیے سفر نہیں کرسکتے تو کم ازکم ہر قبیلہ ،علاقہ اور جماعت کے لوگوں میں سے کچھ لوگ تو ضرور حصولِ علم کے لیے نکلیں اور مراکز علم میں جاکر دین میں بصیرت حاصل کریں اور احکام شریعت میں مہارت پیدا کریں اور جب واپس وطن کو لوٹیں توعام لوگوں کو دین کی باتیں سکھائیں اوراللہ کی نافرمانی کے برے انجام سے ڈرائیں۔ مفسرین نے دونوں ہی مفہوم بیان کیاہے یہاں تفصیل سے بحث کی گنجائش نہیں ہے ۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ علم اور تفقہ فی الدین کی فضیلت دونوں ہی مفہوم میں شامل ہے ۔ دین وشریعت کا علم حاصل کرنے کا حکم ہے، اس کی فضیلت کا بیان ہے اور یہ حکم دین کے مہتم بالشان امور میں سے ہے ۔ یہاں بالخصوص اس بات پر زور ہے کہ طالبانِ دین جب دین کے احکام کا علم حاصل کرلیں،فقہ وبصیر ت کے مالک ہوجائیں تو ان کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ مراکز علم قائم کریں ،علم کی نشر واشاعت کا کام بڑے پیمانے پر انجام دیں، یہاں تک کہ پوری قوم تک ان کا پیغام پہنچ سکے ۔دین کاعلم عام ہو ،عوام الناس اللہ کے احکام یعنی اوامرونواہی اور حلال وحرام سے واقف ہوسکیں۔ اللہ کی عظمت اور آخرت کی کامیابی کا راز پاسکیں اور جنت وجہنم کے انجام سے باخبر ہوجائیں۔ اس آیت سے یہ بھی مترشح ہوتاہے کہ صرف علم دین ہی نہیں بلکہ ملت کی ہر ضرورت کے لیے ہمارے درمیان اہل علم وفن کی ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہئے جس سے ملت کی ضرورت بحسن وخوبی پوری ہوسکے ۔جس کی جانب علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدی نے اپنی تفسیر میں واضح طورپراشارہ کیا ہے۔ سماجی زندگی کی تمام ضروریات ،معاشرت ومعیشت،صنعت وتجارت،میڈیکل وانجینئرنگ،بلڈنگ وتعمیرات ، علوم وفنون،سفروسیاحت اورسیاست وحکومت ،غرض گھر ،کھانا اور کپڑا اور ایک مسلم معاشرے کے قیام کے لیے تمام ضروری اشیاء کو تیار کرنے، انہیں لائق استعمال بنانے اور عوام الناس تک پہنچانے کا سارا انتظام کرنے والے سب لوگ اہل ایمان ہوں ، ہماری ملت سے ہوں ، ہم زندگی کے کسی میدان میں کسی دوسری قوم کے دست نگرنہ ہوں اورنہ ان کے رحم وکرم پر جینے کے محتاج ہوں ۔اس پہلو سے دیکھیے تو ملت کافی پیچھے ہے۔ٹیکنالوجی اور جدید وسائل کے میدان میں ہم دوسروں کے بنائے ہوئے پروگرام اور سسٹم کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں اور ہماری زندگی ذلت کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس آیت میں بہت اہم ذمہ داری کی جانب توجہ دلائی گئی ہے ۔ ہمارے علماء کرام غور کریں ،مدارس آج ملت کی ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی جانب کیا پیش رفت کررہے ہیں ۔ مدارس سے تیار ہونے والے فارغین علماء کس حد تک سماج کی ضرورت بنتے ہیں ۔ مدارس صرف علم دین کا مرکز نہیں بلکہ مدارس ہی ملت کی قیادت کا مرکز ہیں۔ اور موجودہ وقت میں جب کہ مسلمان سیادت وخلافت سے محروم ہیں مدارس ہی امت کے لیے ساری امیدوں کے مرکز ہیں۔ یہاں سے ملت کو تعلیم،تربیت ،علم ودانش ،فقہ وبصیرت اور قیادت وسیادت ملنی چاہئے اور وہ بھی اس اعلیٰ اور جدید پیمانے کے کہ فارغین مدارس آج کے اس ماڈرن دور میں قیادت کے اہل ہوسکیں ۔ اللہ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق بخشے ۔ آمین!

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter