نیپالی مسلمانوں کے ساتھ حکومت کا متعصبانہ رویہ

✒ : صفی اللہ محمد رضا الأنصاری

17 اپریل, 2018

آئینی اعتبار سے نیپال ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر مذھب اور ہر طبقے کو یکساں حقوق حاصل ہیں ہر شہری کو اپنے دین و مذہب ، تہذیب و ثقافت، کلچر وسانسکرتی کو فروغ دینے اور اس پر خوشی کا اظہار کرنے کی پوری پوری آزادی ہے مگر یہ سب صرف کاغذ و قرطاس پر مرقوم ہیں عملی طور پر اس سے کوئی مطلب نہیں ۔ کیونکہ پچھلے کچھ دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے تئیں حکومت کا رویہ کچھ ٹھیک نہیں ہے مسلسل ایک ہی کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، اسکے آئینی حقوق کو غصب کیا جارہا ہے ، ناجانے کیوں حکومت اپنے متعصبانہ رویے اور ظالمانہ بھید بھاو کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات سے کھواڑ کر رہی ہے ۔

آپ کو معلوم ہوگا ابھی حال ہی میں حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے سال بھر کی تمام چھٹیوں کی لسٹ میں مسلمانوں کی عیدین کا نام و نشان نہیں تھا جبکہ دیگر تمام طبقات و کمیونٹیز کے تہوار کی طویل فہرست ایک ایک کرکے موجود تھی۔ حکومت نیپال کے اس نازیبا سلوک اور شنیع حرکت پر مسلمانوں کے دلوں پر بہت گہرا زخم لگا ہے ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں غصے و افسردگی کا اظہار کیا ، تجزیہ نگاروں نے اپنے آرٹیکلز اور مضامین کے ذریعہ تشویش ظاہر کیا ، اداروں کے ذمہ داران نے مذمتی بیان صادر کیا اور سرکار کے اس رویے پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی ۔

ایسے مواقع پر مسلم سنگھرش  گٹھبندھن / اسلامی سنگھ  پیش پیش نظر آتے ہیں ساتھ ہی "کیئر فاونڈیشن” کے تحت چلنے والے تمام ادارے کافی ایکٹیو اور فعال نظر آتے ہیں ایسے تمام ذمہ داران اور حساس افراد قابل مبارکباد ہیں جو مسلمانوں کے مسائل اور انکے حقوق کی بحالی کیلئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں ۔

اس سے پہلے کانگریس کی حکومت میں بھی عید ہی کے دن امتحانات کا معاملہ پیش آیا تھا پھر احتجاج کے ذریعہ درست کرایا گیا اور ایسے ہی تریبھون یونیورسٹی میں  اسکالرشب کے معاملے میں مسلم طلباء کے ساتھ نا انصافی کی گئی اور سوتیلاپن دکھایا گیا۔اسکے علاوہ نہ جانے اور کیا کیا ناروا سلوک اور ناانصافیاں ہوتی رہتی ہیں جس سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے ۔
یہاں سوال یہ ہیکہ آخر حکومت کیوں مسلمانوں کے معاملے میں عصبیت اور تنگ نظری کی شکار ہے؟ کیا حکومت کے پاس مسلمانوں کے بارے میں پوری معلومات فراہم نہیں ہے یا پھر جان بوجھ کر آنکھ مچولی کھیل رہی ہے؟ کیونکہ جب مسلمانوں کے طرف سے کسی چیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو نیپال کی بیورو کریسی بڑی سخت اور دقیق نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے کہ پل پل کی خبر اور مکمل ڈاٹا سے بخوبی واقف ہے مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر اور انکے ثقافات کی پوری جانکاری رکھتی ہے جیسا کہ مدارس کے مسائل کو حل کرنے اور جامعہ سراج العلوم کو یونیورسٹی کا مطالبہ کرنے کے موقع پر دیکھنے میں آیا ۔

بر وقت نیپال کی مرکزی قیادت کمیونسٹ کے ہاتھوں میں ہے ایک اسٹیٹ چھوڑ کر باقی تمام صوبوں میں بام گٹھبندھن (ایمالے و ماوادی) کی سرکار برسر اقتدار ہے۔ انتخاب سے پہلے تجزیہ نگاروں اور سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ بام گٹھ بندھن کے اقتدار میں آنے سے ملک کے حالات بدلیں گے ، ملک ترقی کے مراحل طے کریگا ، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا ، ہر ناگرک کو اسکا حق ملیگا ، مذھبی منافرت اور دھارمک بھید بھاو کا خاتمہ ہوگا مگر افسوس وہی چیزیں یہاں بھی مشاہدے میں آرہی ہیں۔ انتخاب کے دوران راقم نے ایک مضمون میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے افکار و نظریات اور ایجنڈاز پر خامہ فرسائی کیا تھا اور ان خدشات کا اندیشہ ظاہر کیا تھا جو آج ہو رہا ہے مگر بعض احباب کے تبصرے موجودہ سرکار کی بہتری کی طرف غمازی کررہے تھے۔ کاش لوگوں کی امید پر سرکار کھری اترتی اور اپنے حسن عمل اور سیاسی کارکردگی سے مسلمانوں کا دل جیت لیتی ۔

بلا شبہ ہمارا پیارا ملک اپنے ظاہری چمک دمک اور رنگ و روپ کے اعتبار سے عروج و ارتقاء کے منازل طے کرتا نظر آرہا ہے ہر طرف شوارع کی تعمیر و توسیع ، نئے نئے روڈ میپ اور ماسٹر پلاننگ، نیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ وغیرہ وغیرہ یقینا بہت خوش آئند اقدام ہیں عوام کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے مگر ارباب اقتدار کے متعصبانہ رویوں نے روحانی اعتبار ملک کی فضا کو گندلہ کر رکھا ہے ۔ کوئی بھی ملک تعمیر و انشاءات اور جغرافیائی اعتبار دے چاہے جتنی بھی ترقی کرلے اگر وہاں عدل و انصاف کا فقدان ہے، رشوت خوری اور کرپشن عام ہے ، ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی اور بیجا امتیاز و تفریق کیا جارہا ہے،قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں تو ملک کی سالمیت اور امن و استقرار کبھی بھی بحال نہیں رہ سکتی ہے اور ایسے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں میں ہرگز شمار نہیں کیا سکتا ۔
ابھی چند دنوں قبل حکومت کے انھیں متعصبانہ رویوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اتھارٹی پبلیکیشن نے ایک جنرل نالج نصابی کتاب میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر لگائی تھی جسکی شریعت کبھی بھی اجازت نہیں دے سکتی ہے اس بات کو لیکر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پیدا ہوئی البتہ کیئر فاونڈیشن و دیگر حساس افراد کی کاوشوں سے مصنف اور پبلیشر دونوں نے مسلمانوں سے معافی مانگی۔

ہمیں اپنے وطن عزیز سے بیحد پیار ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک آفتاب و ماہتاب کی طرح پوری دنیا میں اپنی ضیابار کرنیں بکھیرے ، ہر شہری خوشحال نظر آئے ملک میں امن و امان قائم ہو، ہر ایک اپنے آپ کو سیف محسوس کرے ۔ اپنے دین و مذہب پر پوری آزادی کے ساتھ عمل اور پرکٹس کر سکے ۔ مگر پڑوسی ملک کی ہوا اب ہمارے وطن کو بھی گردآلود کر رہی ہے اسلئے جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے ہر کسی کا نشانہ مسلم کمیونٹی پر ہوتا ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا مسلمان اس ملک کے باشندے نہیں ہیں ؟ اس ملک میں انکا حصہ نہیں ہے ؟ نیپال سرکار کو چاہئے کہ آئین و دستور کا احترام کرے ، ہر شخص کو اسکا جائز حق دے تاکہ ملک میں امن و شانتی قائم رہے ہر فرد امن کی سانس لے سکے ۔
ویسے مسلمان ایک حساس اور زندہ قوم ہے یاس و قنوت اسکا شیوا نہیں ہے اسلئے مسلمانوں کو کھبی بھی مایوس ہوکر خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اپنے دین و عقیدے کی مضبوطی کے ساتھ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا چاہئیے اور سرکار کی طرف سے ہونے والے تمام مظالم اور متعصبانہ رویوں کے خلاف اپنی قوت فکر وعمل سے آئینی حقوق کا لوہا منوانا چاہیئے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter